Home تجزیہ جدید ہندوستان، فرقہ پرستی، اورملی قیادت

جدید ہندوستان، فرقہ پرستی، اورملی قیادت

by قندیل

 
(دسویں قسط)
نجم الہدیٰ ثانی
فرقہ پرستی اور ملی قیادت: چند گذارشات
1۔ ملی قیادت کے لئے اس حقیقت کا ادراک اور اظہار ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کے دو پہلو ہیں: خارجی اور داخلی۔ خارجی سے مراد یہ ہےکہ فرقہ پرستی صرف مسلمانوں کا داخلی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ہندوستانی سماج کا مسئلہ ہے۔ ہمیں نظری اعتبار سے اس بات کا بر ملا اظہار کرنا چاہئے کہ یہ مسئلہ کسی مخصوص فرقہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے ملک کی سالمیت، امن و امان، اور خوشحالی و ترقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔
اسی طرح اس نزاکت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اقلیتی فرقہ پرستی اکثریتی فرقہ پرستی کا حل نہیں ہے۔ فرقہ پرستی اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے ایک ہے اور اس کی ہر قسم اپنے مخالف کیمپ کی فرقہ پرستی سے غذا حاصل کرتی ہے۔ وہ تمام عناصر بد جو فرقہ پرستی کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں ان سے ملی قیادت واضح الفاظ اور دو ٹوک لہجے میں اپنی بے زاری اور برات کا اظہار کرےخواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور ذات سے ہو۔اور سماج کے وہ تمام طبقات جو فرقہ پرستی سے متاثر ہوتے ہیں وہ ملی قیادت کی ہمدردی کے مستحق ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور ذات سے ہو۔اس سلسلے میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
2۔ اسی طرح ملی قیادت کو اپنے دائرہء کار کی محدودیت کا احساس بھی ہو نا چاہیئے۔ فرقہ پرستی ایک کثیرالجہات اور کثیر الابعاد مسئلہ ہے ۔رسل و رسائل اور تعلیم کے عموم،اکہرے شناخت کا فزوں تراحساس، عالمی سیاست کے بساط پر مسلمانوں کی پوزیشن، اور ان جیسے متعدد سماجی، سیاسی اور معاشی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے فرقہ پرستی روز بروز ایک زیادہ پیچیدہ مسئلہ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس کےحل کے لئے پارلیمنٹ سے لے کر سماجی اداروں تک ، مذہبی پیشواؤں سے لے کر مذہب بیزار مگر انسان دوست طبقات تک ، انتظامیہ سے لے کر دانشوران تک اور طلبہ و نوجوانوں سے لے کر خواتین اور مزدوروں تک ہر ایک کواپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہماری سمٹی سمٹائی ملی قیادت اس سلسلے میں سب کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ خواہ وہ جتنا بھی کرے ، جو وہ کرسکتی ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
فرقہ پرستی کا داخلی پہلو یہ ہے کہ ملک میں ایک طبقہ نظری اور عملی اعتبار سے اس بات میں یقین رکھتاہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اعلا ذات کے ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت کو ، جسے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ‘ہندوستاتی تہذیب’ کہا جاتا ہے، اپنالینا چاہئے۔اس بات کوملک سے ان کی محبت اور وفاداری کے لئے اب معیار بنا دیا گیا ہے۔ اس نظریئے کے مطابق مسلمان کبھی بھی اپنے عقیدہ و اخلاقی نظام، مذہبی تصورات اور معاشرتی رسوم ورواج کے ساتھ اس ملک کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ اور اگر وہ اس بات کو ماننے سے انکار کر تے ہیں تو انہیں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت حاصل ہوگی۔سنگھ پریوار نے فرقہ پرستی کو اپنی جارحانہ ‘تہذیبی قوم پرستی’کی تبلیغ و اشاعت کے لئے ایک طریقہ ء کار کی حیثیت سے اختیار کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے مسلمان اپنے مذہب، اس ملک میں اپنی تاریخ ، اور جدید ہندوستان کے مختلف سیاسی اورسماجی واقعات کی وجہ سے اس پالیسی کے لئے تختہء مشق بنتے ہیں، اس لئے فرقہ پرستی کے کڑوے کسیلے پھل بھی سب سے زیادہ انہیں کی جھولی میں آتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ان کا داخلی مسئلہ ہے۔ (جاری)

You may also like

Leave a Comment