Home خاص کالم جدید دست درازیاں

جدید دست درازیاں

by قندیل

فضیل احمد ناصری
پچھلے دور میں سفر کرنا "کوہ کندن، کاہ برآوردن” تھا۔ انتہائی دشوار گزار۔ حد درجہ اذیت ناک۔ چند میل کا سفر بھی جوئے شیر لانے کے مترادف۔ اونٹ، گھوڑے، خچر، گدھے سے ہی سواری کا کام لیا جاتا۔ بیش تر تو پیدل ہی چلتے۔ بسا اوقات سفر سے واپسی میں مہینوں لگ جاتے۔ ٹرینیں نہیں تھیں۔ ہوائی جہاز نہیں تھے۔ سفر کے موجودہ دیگر ذرائع بھی متصور نہیں تھے، اسی طرح آلاتِ حرب کی موجودہ شکلوں کا بھی کوئی نام و نشان نہ تھا، دیگر ایجادات اور تخلیقات کا بھی دور دور تک کوئی گزر نہ تھا، لیکن قرآن نے ساڑھے چودہ سو برس پہلے ہی ان سب کی خبر دے دی تھی۔ فرمایا: ویخلق ما لا تعلمون۔
جدید مفسرین کہتے ہیں کہ اس چھوٹے سے ٹکڑے سے سفر کے حالیہ تمام ذرائع، اسی طرح تمام ایجادات کا ذکر قرآن نے اجمالاً بیان کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن نے اس کی تفصیل کیوں نہیں کی؟ مفسرین اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ صحابہؓ کے زمانے میں ان کا ذکر آتا تو ان کے فہم سے بے حد بالاتر چیز ہوتی۔ جہاز کی شکل ان کے ذہن میں کیسے اترتی؟ ریل گاڑیوں کی صورت انہیں کس طرح سمجھائی جاتی؟ توپ اور ٹینک کی تصویریں ان کی سطحِ ذہن پر کیسے ابھرتیں؟ اسی لیے قرآن نے اجمالاً کہہ دیا: ویخلق ما لا تعلمون۔
اسی قبیل سے اس حدیث کو بھی سمجھیے:
ایک دن پیغمبرِ اسلام علیہ السلام نے فرمایا کہ بڑے گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ صحابہ تو پیغمبر علیہ السلام کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے تلامذۂ خاص۔ طبیعت تقویٰ سے آراستہ۔ نیک صورت۔ نیک سیرت۔ زبان تسبیحات سے مرطوب۔ دل خوفِ خدا سے لبریز۔ قرآن ہی نے کہا ہے: والزمہم کلمۃ التقویٰ۔ ان کے فہم میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ایک مسلمان اپنے والدین کو کیوں کر گالیاں دے سکتا ہے؟ سوال کر بیٹھے، حضور! یہ بھی ممکن ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ممکن ہے۔ اس کی شکل یہ بھی ہے کہ: یسب ابا الرجل و یسب اباہ۔ یعنی ایک شخص کسی کے والدین کو گالی دے اور وہ بھی پلٹ کر اسے گالی دے دے۔ مگر یہ شکل تقریبِ فہم کے لیے تھی۔ اگرچہ یہ بھی والدین کی اذیت کا سبب ہے۔ اصل بات یہی تھی کہ مسلمان کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ممکن ہے۔ اس زمانے میں اس کا فہم دشوار تھا، اس لیے زاویۂ کلام بدل دیا گیا، لیکن آج یہ حدیث ایک دم بے غبار ہے۔ والدین کو گالی دینا جگ ظاہر ہے۔ بات بات پر گالیاں۔ بسا اوقات ان کے ساتھ مار دھاڑ بھی۔
اسی قبیل سے یہ حدیث بھی ہے اور اس مجلس میں اسی کا ذکر مقصود تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: المسلمون من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔ کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ زبان سے محفوظ رہنا تو سب جانتے ہیں۔ زبان کا گھاؤ تیر کے گھاؤ سے زیادہ اندوہ ناک ہوتا ہے۔ اپنے مخاطب کو زیر کرنے کے لیے سب سے زیادہ اسی کا استعمال ہوتا ہے۔ بدکلامی، درشت گوئی اور سب و شتم اسی سے ہوتا ہے۔ ہاتھ سے محفوظ ہونے والی بات بھی کچھ کھلی ہوئی ہے۔ مثلاً: جب آدمی آپے سے باہر ہو تو مد مقابل پر ہاتھ سے حملہ کر دیتا ہے۔ اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ انگلی سے اشارے کر کے اپنی بھڑاس نکالتا ہے۔ کسی زمانے میں مخالف کو انگوٹھا دکھا کر اذیت رسانی کی جاتی تھی۔ یہ بہت بڑی گالی تھی۔ اب انگلیوں سے v کا نشان بنا کر مقابل کی کھلّی اڑائی جاتی ہے۔ خط و کتابت اور تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی ایذا رسانی کا ایک طویل دور ہے۔ اخبارات و رسائل بھی اسی فہرست میں۔ وھلم جرّاً۔
لیکن ایک بات اور ہے، جس کی طرف کسی قدیم و جدید عالم نے اشارہ نہیں کیا۔ قدیم کے لیے تو خیر ناممکن ہی تھا۔ جدید علما اب بیان کریں گے۔ وہ سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔ کسی کا دل دکھانے کے لیے اب اس سے زیادہ کوئی اور چیز موزوں نہیں۔ جب سے ان کا وجود ہوا ہے، طوفانِ بد تمیزی اپنے عروج پر ہے اور آئے دن مائل بہ ثریا۔ جسے کسی کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنی ہو، موبائل، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر سنبھالتا اور گولے داغ دیتا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہر شخص کی عزت خطرے میں ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا۔ آں قدر ایں قدر سب۔ محدثِ کبیر، عالمِ جلیل، صوفئ باصفا، گدی نشین، سلطان و وزیر سب کی عظمتیں داؤ پر ہیں۔ کون کس کے خلاف اپنی انگلیوں کو جنبش دے گا، کہا نہیں جا سکتا۔ یہ دست درازیوں کا جدید طریقہ ہے۔ سارے فتنے اب انگلیوں میں خیمہ زن ہیں۔ بڑے بڑے فسادات اور جنگ و جدال انہیں کی مرہونِ منت ہیں۔ مصر کا میدانِ التحریر انہیں انگلیوں سے ایک بڑے انقلاب کا گواہ بنا۔ کتنے ہی انگشتانہ جرائم کی پاداش میں دیوارِ زنداں میں محصور ہیں۔ کتنے ہی اپنی جانِ عزیز انہیں کے ہاتھوں گنوا بیٹھے۔ اللہ عز و جل اور پیغمبر علیہ السلام کے الفاظ بے حد جامع ہوتے ہیں۔ ان میں سلسلے کے سارے ممکنات آ جاتے ہیں۔
لہذا مسلمانوں سے گزارش ہے کہ زبان کی طرح اپنی انگلیوں کی بھی خوب حفاظت فرمائیں اور سوشل میڈیا کا استعمال کسی کی دل آزاری کے لیے ہرگز نہ کریں۔

You may also like

Leave a Comment