راحت علی صدیقی قاسمی
جمہوریت کی عمارت چار ستونوں پر قائم ہے، جب تک یہ ستون مضبوط و مستحکم ہیں یہ عمارت قائم ہے۔ اس کی خوبصورتی، جاذبیت و دل کشی برقرار ہے، اس کا حسن و جمال باقی ہے ، جس وقت اس عمارت کا کوئی بھی ستون کمزور پڑجائے ٹوٹ جائے یا بوسیدہ ہوجائے تو اس عمارت کا حسن زائل ہوجائے گا، اس کی خوبصورتی متاثر ہوگی، اس کی دلکشی پر حرف آئے گا، اس کی کیفیت اس شخص کی مانند ہوگی فالج کے حملے نے جس کے دائیں جانب یا بائیں جانب کے اعضاء کو متاثر کردیا ہو اور وہ ایک طرف جھک جائے۔جمہوریت کی عمارت میں رہنے والے لوگ خوف و ہراس، درد و غم تکلیف و کڑھن محسوس کریں گے، ہر لمحہ ان کے سینے پر سانپ بن کر لوٹے گا، سانس لینا بھی انہیں خوف کا احساس دلائے گا، یہی جمہوری نظام کی ضروریات و لوازمات ہیں، ہمارا ملک ایک تہائی صدی کے قریب جمہوریت کی عمارت میں پناہ گزیں ہے، اس کی خوبیوں سے مستفید اس نظام کا دل دادہ اور ثنا خواں ہے، جان عزت آبرو ہر شئے اس کی حفاظت میں قربان کرتا ہے، اس مٹی کے خمیر سے بنے افراد اس کی دلکشی کو برقرار رکھنے کے لئے، اپنی جان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں، گولیوں کا استقبال سینے سے کرتے ہیں، محبوب کی دل ربا ادائیں، جاذب نظر حسن، ماں کی محبت باپ کی شفقت، اولاد سے جدائی کا ناقابل بیان درد، ان کی راہ میں دیوار بن کر حائل نہیں ہوتا، سرحدوں پر بھی مقابلہ کرتے ہیں، ملک کے جسم پر لگی آلودگی و گندگی کو بھی صاف کرتے ہیں، غازی بھی بنتے ہیں جام شہادت بھی نوش کرتے ہیں، بزدلی کی چادر اوڑھ کر دنیا سے رخصت نہیں ہوتے، بہادری کا سہرا باندھ کر دولہا کی طرح سج دھج کر کائنات کو خیرباد کہتے ہیں، ملک کے خدمت گذار سیاسی رہنما بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں لمحہ بھر غافل نہیں رہتے۔ وکلاء اور جج بھی حقائق کی جستجو میں شب و روز صرف کرتے ہیں، مجرم و ملزم میں فرق کرتے ہیں، قلم کا سپاہی بھی جمہوریت کی حفاظت کے لئے اپنے خون سے عبارت تحریر کرتا ہے، باقر علی سے گوری لنکیش تک کا سفر اس دعوے کی دلیل ہے، جب تک یہ صورت حال قائم ہے، ملک میں جمہوریت کا مستقبل روشن و سنہرا ہے لیکن گذرتے لمحات شب وروز کا چلتا چکر کچھ اور ہی احساس دلا رہا ہے، خدشات و امکانات کے لازوال تصورات سے ذہن کو دو چار کررہا ہے، وقت کا کانٹا اپنی جگہ سے آگے بڑھتا ہے اور خوف ناک منظر نگاہوں کا استقبال کرتا ہے، جمہوریت کے جسم پر ابھرتے زخموں کو نمایاں کرتا ہے، جمہوریت کے چاروں ستونوں کی خامیوں و خوبیوں کو واضح کرتا ہے، جس منظرنامہ کو دیکھ کر یہ عمارت لرزتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور تصورات کی دنیا ناقابل بیان صورت تک سفر کرتی ہے، ذہن تصویریں بناتا ہے، جنہیں لفظوں کا پیکر عطا کرنے کی تاب نہیں لا پارہا ہوں ، جمہوریت کے چاروں ستون مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، اور میڈیا، عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہیں، یقیناً ان سے وابستہ افراد ان کا طرز زندگی ان چیزوں پر گفتگو ہمارا مقصد نہیں ہے، لیکن جو تصویریں ہمارے سامنے ابھر رہی ہیں، وہ قابل ذکر ہیں۔ ملک کا سب سے اہم شعبہ عدلیہ ہے، جس ملک کا عدلیہ معیاری اور اعلیٰ درجہ کی خدمات انجام دیتا ہے، وہاں جرائم پیشہ افراد کو سانپ سونگھ جاتا ہے، وہ جرائم کے ارتکاب کا ارادہ بھی نہیں کرتے بلکہ ان کے خیالات سے بھی جرائم کا گزر کم ہوتا ہے، ہمارے ملک کا نظام عدلیہ انتہائی باوقار ہے، ہر شخص اس پر اعتبار کرتا ہے، اس کے فیصلوں اور احکامات کو اٹل، درست، تعصب سے بری مان کر عمل پیرا ہوتا ہے، اپنے مسائل کے حل پر اس کا احسان مند ہوتا ہے، البتہ نظام عدلیہ کی صورت حال سے بھرپور واقفیت رکھنے والے افراد نے اس سے بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے، مثال کے طور پر سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کے آنسوؤں میں یہ بے اطمینانی گذشتہ سال ہم نے دیکھی ، ججوں کی قلت اور ان کے تقرر کے معاملہ میں ٹی ایس ٹھاکر آبدیدہ ہوگئے تھے، ان کے دل میں چُھپا غم آنسوؤں میں بہہ پڑا تھا، ملک کے ہر ذی شعور شہری نے اس تکلیف کو محسوس کیا اور انصاف میں ہوئی تاخیر کے بہت سے واقعات طشت از بام ہوگئے اور یہ ثابت ہوا کہ انصاف اتنا سستا نہیں ہے، لوہے کے پاؤں اور سونے کے ہاتھ ہوں تو کچھ بات بنے، پینڈنگ معاملات کی تفصیل اور ججوں کی قلت نے اس محاورہ کو حقیقت کا جامہ پہنا دیا ہے،دو دن قبل جو خبر آئی ہے، اس نے ہر ہندوستانی کے قلب میں بے چینی پیدا کردی ہے، حیرت زدہ کردیا ہے، کوٹ روم کی چہار دیواری میں بیٹھ کر گواہ و ثبوت کی روشنی حق کو واضح کرنے والے، میڈیا سے دوری برتنے والے جج صاحبان میڈیا کے سامنے آئے، درد بیان کیا، اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا، نظام عدلیہ میں جو محسوس کیا، اسے سب کے سامنے رکھ دیا، ان کی ایمانداری، وفا شعاری کی یہ بین دلیل ہے، وہ بھی وہی طرز اختیار کر سکتے تھے، جو وقت کی نزاکت اور زمانے کی پکار تھا ، لیکن انہوں نے ہمت و استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنے درد کو ہندوستانیوں کے حضور پیش کر دیا، جمہوریت کی حفاظت کی دعوت دی، ان جج صاحبان کے خیال کے مطابق جو طرز عمل چیف جسٹس دیپک مشرا کا ہے، وہ جمہوریت کے لئے زہرناک ہے، وہ اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کررہے ہیں، اپنی مرضی سے بلا دلیل اپنی پسند کے ججوں کو معاملات سونپ رہے ہیں، جو نظام عدلیہ کے خلاف ہے، انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر متنبہ کرنے کی کوشش کی، وہاں ناکامی کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا، انہوں نے مثال کے طور پر ایک کیس بھی ذکر کیا ہے، آر پی لوتھرا بنام ہندوستانی جمہوریت اور آگے بھی حقائق سے آگاہ کرنے کا وعدہ کیا ہے، ان چاروں ججوں کی سبرامنیم سوامی نے بھی تعریف کی، ان کی ایمانداری، خدمات اور قابلیت کا
اعتراف کیا، جس سے اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ یہ جج درست کہہ رہے ہیں، اگر تحقیقات میں یہ دعاوی درست پائے جاتے ہیں، تو یہ بہت بڑا المیہ ہے، جو ملک کے وقار کو مجروح کرتا ہے، عدلیہ کی حرمت کو پامال کرتا ہے، لوگوں کے بھروسے کو زخمی کرتا ہے، انصاف پانے کی خواہش کو چکنا چور کرتا ہے، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس معاملہ کے سامنے آتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے سکریٹری چیف جسٹس سے ملاقات کے لئے پہنچے، البتہ ملاقات نہیں ہو سکی اور سوال کئے جانے پر انہوں نے نئے سال کی مبارک باد دینے کی بات کہی، یہ کیفیت سوالات کو جنم دیتی ہے۔ 12دن بعد نئے سال کی مبارک باد چہ معنی دارد؟ کیا تعلق ہے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کا؟ حقائق ابھی پس پردہ ہیں، مستقبل ہی سچائی کو عیاں کرپائے گا، اس شعبہ کی صورت حال تکلیف دہ ہے، سیاسی رہنماؤں کو اس سمت میں بھرپور توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ان مسائل کا سدباب کیا جاسکے اور عدلیہ کے وقار کو بحال کیا جا سکے – ایوان بالا مقننہ سے وابستہ افراد کس صوت حال کا مقابلہ کرکے نشست حاصل کرتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ایک دوسرے پر لعن طعن ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنا، پھبتیاں کسنا، غیر مہذب جملے کہنا، سیاسی رہنماؤں کے یہاں عام بات ہے، یقین نہ آئے تو انتخابی ریلیاں سن لیجیے، پھر یہی لوگ مقننہ کا حصہ بنتے ہیں، ان کے علم و وقار کا معیار کیا ہے سب جانتے ہیں، طلاثہ بل نے بھی ان کی صلاحیتیں عیاں کردیں اور اسی شعبہ سے وابستہ افراد نے اس کی خامیوں کو اجاگر کردیا، جو اس صورت حال کی اصلاح کا تقاضہ کرتا ہے۔انتظامیہ ملک کا انتہائی اہم شعبہ ہے، اس شعبہ میں بھی آوازیں بلند ہوتی رہیں، ایک فوجی نے کھانے کی شکایت کرکے خامی کا اظہار کیا تھا، کشمیر میں ایک فوجی کے لڑکی کو چھیڑنے کا معاملہ سامنے آیا تھا، اس کے علاوہ اترپردیش یوگی دور میں 935 انکاؤنٹر ہونا بھی انتظامیہ کی صورت حال کو عیاں کرتا ہے، جن میں سے بہت سے لوگ موت کی نیند سو چکے ہیں ، سوال پیدا کرتا ہے؟ کیا ان میں سے ہر ایک مجرم تھا؟ کیا پولیس کو عدلیہ پر بھروسہ نہیں ہے؟ کیا ان لوگوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے تھا؟ کیا پولیس کی ٹریننگ اتنی مضبوط اور پختہ نہیں ہے کہ وہ بغیر انکاؤنٹر کئے مجرم کو گرفتار کرسکیں ؟ جب کہ ماضی میں بہت سے انکاؤنٹر مشتبہ سمجھے گئے، بہت سے پولیس اہلکاروں کو سزا بھی ہوئی، پھر یہ طریقہ کیوں کر روا ہے؟ کیا اس پر غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے، چوتھا ستون میڈیا ہے، جس کے کھیل کا کیا کہنا، لوگوں کے ذہنوں سے کھیلتا ہے، ان کے جذبات سے کھیلتا ہے، ان کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر اپنا کرتب دکھاتا ہے، مذہبی پہلوؤں پر مباحثہ کرتا ہے، مذہبی تعصبات کو ہوا دیتا ہے اور کیفیت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ایک خوددار صحافی کو یہ کہنا کہ پڑتا ہے کہ میں اس شعبہ سے متعلق ہوں جس سے ارنب گوسوامی جیسے لوگ وابستہ ہیں مجھے افسوس ہے ۔جمہوریت کے چاروں ستونوں کی کیفیت آپ کے سامنے آگئی ہے، ہر شعبہ کے اندر ہی سے باضمیر افراد نے آواز بلند کی ہے، حقیقت کو عالم آشکار کیا ہے، حالات درست کرنے کی دہائی دی ہے، جمہوریت کی حفاظت کی دعوت دی ہے، اور اب ہندوستان کے سب سے اہم شعبہ اور اس کے سب سے اہم ادارہ کی جانب سے آواز بلند ہوئی ہے، اس طرف بھرپور توجہ کی سخت ضرورت ہے اور ملک کے وقار جمہوریت کی عزت کو بچانے کی سخت ضرورت ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو دور اندیش قابل جج صاحبان نے خطرے سے آگاہ کردیا ہے، جمہوریت کو بچانا مشکل ہوگا، ملک کا وقار محفوظ رکھنا ناممکن ہوگا، بھول جائیے آپسی رنجشوں کو اور ملک کی حفاظت کے لئے کوشش کیجئے، خود کو سدھارئیے، جس شعبہ سے وابستہ ہیں اس میں انقلاب لانے کی کوشش کیجئے، ملک کاہر شہری اپنا فرض ادا کرے، تو ہندوستان پھر سے جنت نشان ہوگا۔
09557942062:رابطہ
جب ضمیر بیدار ہو
previous post