*موجودہ پس منظرمیں ایک واٹس ایپ گروپ پرہونے والی مفید گفتگو*
(یہ گفتگوجن حضرات کے مابین ہوئی ہے،وہ سبھی مذہبی وعلمی بصیرت کے ساتھ ملکی وملی احوال ومسائل سے دلچسپی اوران کے تئیں اپنا ایک مستقل نظریہ رکھنے والے لوگ ہیں،ان میں سے ایک مولانامبین احمدسعیدی دارالعلوم دیوبندکے فاضلِ دینیات ہونے کے علاوہ انگریزی وزبان وادب میں بھی دست گاہ رکھتے ہیں اور فی الوقت مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور دربھنگہ کے مہتمم ہیں، دوسرے مولانااحتشام الحق قاسمی ایک ذی استعدادعالم ہیں، ایک مدرسے میں عربی کے استاذ اور جمعیت علماے دربھنگہ (م) کے نائب صدرہیں، جبکہ تیسرے مولانارضی الرحمن قاسمی رضوی انٹرنیشنل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ، ینبع، مدینہ منورہ میں تعلیمی وتحقیقی خدمات انجام دے رہے، اب تک ان کی متعددعلمی، فقہی وتحقیقی کتابیں منظرِ عام پرآچکی ہیں،نئی نسل کے فضلاے مدارس کے مابین اپنی فکری بصیرت اورعلمی دقتِ نظری کے سبب منفردشناخت رکھتے ہیں،چوتھے مولاناغفران ساجدقاسمی مذہبیات کے عالم ہونے کے علاوہ اردوصحافت بطورِ خاص اردوکی برقی صحافت کے فروغ کے حوالے سے خاصاجانا پہچانا نام ہیں،ان کے زیرِ ادارت سرگرمِ عمل "بصیرت آنلائن "ہندوستان میں اردوکے اولین نیوزپورٹلس میں سے ایک ہے )
مولانا مبین احمد سعیدی:
کچھ لوگ واٹس ایپ پر ہی بکواس کر کے سمجھ رہے ہیں کہ قلعہ فتح ہوجائے گا، جبکہ واٹس ایپ سے باہر دیکھا جائے، تو ایسے لوگ دھرتی پر بوجھ ہیں،
ایسے لوگ اگر کما کر اپنی بیوی بچوں کی پرورش کر رہے ہیں، توان کے لیے یہی بہت بڑا کارنامہ ہے، میدان میں کام کریں، تب سمجھ میں آئےگا، واٹس ایپ پر بکواس سے نہیں۔
مولانا رضی الرحمن قاسمی:
برادر محترم مولانا مبین سعیدی صاحب کا لب و لہجہ تھوڑا سخت ضرور ہے؛ لیکن ان کی بات بالکل صحیح ہے۔
کچھ لوگ گورنمنٹ سے نالاں، امتِ مسلمہ کے افراد سے برگشتہ اور مسلم تنظیموں کے قائدین سے متنفر ہیں۔
گورنمنٹ کیا چاہ رہی ہے اور کیا کر رہی ہے، مسلمانوں کو کس طرح ہدف بنا رہی ہے، وہ جگ ظاہر ہے۔
مسلمانوں میں تعلیم کی کمی اور ملی شعور کا فقدان کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
مسلم تنظیموں کے قائدین بھی انسان ہیں، ان کے فیصلوں کی غلطی سے اور کچھ اپنے ذاتی تحفظات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں، ان کے اخلاص کا بغیر ثبوت کے انکار بھی خود اپنے آپ کو اللہ حاضر و ناظر کے سامنے کھڑا کر کے سوچنے کا موضوع ہے۔
ایسے برگشتہ اور بسا اوقات ہذیان گوئی کرنے والے لوگوں سے یہ چند سوالات ہیں، توقع ہے کہ اللہ عز و جل کے سامنے اپنے آپ کو کھڑا کر کے اپنے آپ سے ان سوالوں کا جواب طلب کریں گے۔
1- موجودہ گورنمنٹ کی مسلم دشمنی ظاہر ہے، آپ نے قانونی طور پر اس سے امتِ مسلمہ کو بچانے کے لیے کیا پلان بنایا ہے اور کیااسٹراٹیجی طے کی ہے؟ اس پر عمل در آمد کی کیا کوششیں آپ نے کی ہیں؟ یا کسی اور کا پلان، جو آپ کی سمجھ کے مطابق مناسب ہو۔ اس کی کامیابی میں آپ کی تگ و دو کیا ہے اور کتنی ہے؟
2- امتِ مسلمہ میں تعلیم کے فروغ کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں اور آپ کے پاس اس کے لیے ٹھوس لائحۂ عمل کیا ہے؟ کیوں کہ تعلیم کے بغیر بہتری ممکن ہی نہیں۔
3۔ مسلم تنظیموں کے قائدین آپ کی سمجھ کے مطابق نا اہل اور ناکام ہیں، تو آپ ہی آگے بڑھیں، ان تنظیموں کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں، یا کوئی ایسی نئی تنظیم کی داغ بیل ڈالیں، (آپ پر کوئی پابندی تو نہیں ہے) جس کے ذریعہ آپ منظم طور پروہ کام کریں، جو یہ نہیں کر پارہے ہیں۔ کیا آپ یہ کر رہے ہیں؟
ضرورت دانش مندی کی ہے، پلاننگ کی ہے، زمینی طور پر تعلیم کے فروغ کی ہے، باہم جڑ کر آگے بڑھنے کی ہے، واٹس ایپ واٹس ایپ اور فیس بک فیس بک کھیلنے کی نہیں ہےـ
مولانا احتشام الحق قاسمی:
مسلم پرسنل لا بورڈ میں ایسے ایسے ممبران ہیں، جو تعویذ کے کلمات بهی صحیح سے نہیں لکھ پاتے، جو ان کا پیشہ ہے، نہ وه حافظ ہیں،نہ قاری، نہ عالم اور نہ ہی کسی دنیوی تعلیم کے ماہر ـ
مرید ہیں، نذرانہ ہے، جلسہ کرنے کرانے کی لیاقت ہے، بس کافی ہے ممبری کی لیے، کلکتہ اور بہار میں درجن بھر ایسے ممبران ہیں،جو صرف اور صرف نعره لگانا اور لگوانا جانتے ہیں، باقی کچھ صلاحیت نہیں، جب بورڈ اپنی قوم کے باصلاحیت افراد کی نہ بات سنے گا اور نہ ان کو شامل کرے گا،تو بورڈ کی اہمیت دن بدن ختم ہوجائے گی، جس دن بورڈ اپنی قوم کی بات سننا اور سمجهنا اور اپنے افراد کی صلاحیت سے فائده اٹهانا سیکھ لے گا اور اپنے ارد گرد تقدس کے مکر جال کو ہماری قیادت ہٹا دے گی،اس دن بورڈ یا اور کوئی بهی تنظیم کامیاب ہو جائے گی۔
مولانامحمد رضی الرحمن قاسمی:
برادر محترم مولانا احتشام صاحب!
آپ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے درجن بھر ممبران (جو بہار اور کولکاتا سے ہیں) کے بارے میں یہ فرمایا کہ وہ بالکل ہی نااہل ہیں، غیر تعلیم یافتہ ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا ملی اثاثہ ہے، کسی فرد کی نجی آرگنائزیشن نہیں ہے، بہ حیثیت ہندوستانی مسلمان ہونے کے ہمارا فریضہ ہے کہ اس پلیٹ فارم کو ہر طرح سے اپنی قدرت بھر نصرت اور مدد دیں، یہ بات واضح ہے کہ اس گروپ پر یہ لکھ دینے سے کہ اتنے افراد نااہل ہیں، عملی طورپر کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ ہر انسان اللہ کی بارگاہ میں اپنی طاقت بھر کام اور اصلاح کی کوشش کا مکلف ہے، اصلاح کر دینا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔
اس پس منظر میں آپ سے درخواست ہے (آپ ماشاء اللہ اچھے قلم کار ہیں اور بات کو واضح طور پر پیش کرنے کا آپ کو ملکہ ہے) کہ ان درجن بھر افراد کی فہرست مرتب کریں، ان کی نا اہلی کو حقائق اور دلائل کی روشنی میں واضح کریں، پھر اس تحریر کو بورڈ کے اعلی ذمے داروں تک پہنچائیں، کہ اصلاح کی اتنی کوشش آپ کر سکتے ہیں، تو ایسے نازک وقت میں یہ آپ کی ذمہ داری اور فریضہ ہے۔
ماشاء اللہ آپ خود اس مرتبے کے حامل ہیں کہ اس تحریر کو مسلم پرسنل لا کے ذمہ داروں تک بہ سہولت پہنچا سکتے ہیں، گروپ میں موجود کئی مؤقر رفقاایسے ہیں کہ وہ بھی اس تحریر کو ذمے داروں تک پہنچانے میں آپ کا تعاون کر سکتے ہیں، یہ حقیر بھی کم ازکم مخدومی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ (جو بورڈ کے فعال سکریٹری اور اس حقیر کے مشفق استاذبھی ہیں) تک اور مولانا وقار الدین لطیفی تک اس تحریر کو پہنچاسکتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ جلد ہی ہمارے محترم بھائی مولانا احتشام صاحب ملت کے اس قیمتی اثاثہ کے تحفظ کے لیے اس کام کو ضرور کریں گے اور اس تحریر کو گروپ پر بھی شیئر کریں گے کہ افادہ عام ہو۔
شرعی علوم کے ایک ادنی سے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری سمجھ کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کے اس مشترکہ پلیٹ فارم کی تقویت کے لیے ان نااہل افراد کی حقائق اور ٹھوس ثبوت کی روشنی میں فہرست سازی شرعا غلط کام نہیں ہوگا، کہ مصلحتِ عامہ لوگوں کی خصوصی مصلحت پر شرعا مقدم ہوتی ہے، اس بابت دوسرے اہل علم بھی اپنی رائے پیش فرمائیں۔
آخری بات:
اس حقیر کو ایسے مباحثوں میں دلچسپی نہیں ہے، جو دین و دنیا دونوں کے فائدے سے خالی ہوں، دعابھی کرتا ہوں اور قدرت بھر کوشش بھی کہ اللہ عزو جل اسلام ، مسلمان اور انسانیت کی خدمت لے لے۔
دو دن سے ہونے والے مباحثوں کے پس منظر میں ضمیر نے یہ کہا کہ اپنی سمجھ اور موقف رکھ دینا چاہیے:
اگر خاموش بہ نشینم، گناہ است
باقی ماشاء اللہ ملتِ اسلامیہ کے چندے آفتاب و چندے ماہتاب فرزندان ہیں، جو یقینا زیادہ بہتر کہہ بھی سکتے اور کر بھی سکتے ہیں۔
مولاناغفران ساجدقاسمی:
امت مسلمہ پر بڑا نازک وقت آپڑا ہے،ہماری نوجوان نسل دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسی لابی کے آلۂ کار بنتے جا رہے ہیں، جس کا مقصد عوام کو علما سے بدظن کرکے علماے کرام سے عوام کو دور کرنا ہے،اسی طرح نوجوانوں کو علما کی قیادت سے برگشتہ کرکے انہیں قیادت کے خلاف عوام کو بھڑکانا ہے،طلاق ثلاثہ بل کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف نوجوانوں کی تحریروں میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی اعلی قیادت پر ایسے رکیک اور بھدے الفاظ سے حملہ کیا جارہا ہے، جو کہ ملی قیادت بالخصوص بورڈ کے لیے نامناسب ہے؛کیوں کہ حکومت کا منشا ہی یہی ہے کہ عوام کو علما اور بورڈ سے دور کر دیا جائے؛تاکہ حکومت اپنی من مانی کر سکے؛ لہٰذا ایسے نازک وقت میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی سطح سے ایسی کوشش کریں کہ جس سے عوام و خواص کو یہ باور کرایا جاسکے کہ بورڈ مسلمانوں کا متفقہ ادارہ ہے اور ہمیں بورڈ کی قیادت پر مکمل اعتماد ہے،اس موضوع پر مضامین لکھیں بیان کریں اور اپنے حلقہ کے احباب کو بھی اس جانب متوجہ کرائیں،یہ وقت بیجا تنقید کا نہیں ہے؛ بلکہ امت مسلمہ کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا ہے ـ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو( آمین)
تین طلاق بل: ہم کیاکریں؟
previous post