محمد حامد ناصری
استاذ درالعلوم الایمان کنشاسا کونگو،افریقہ
نقد عربی زبان کا لفظ ہے،نقد الشيءَ نقدًا: نقره ليختبره، أو ليميز جيدةً من رديئهِ، نقد الدراهم والدنانير: ميز جيدها من رديئها، يقال: نقد النثر، ونقد الشعرَ: أظهر ما فيها من عيب أو حسن۔ وفلان ينقد الناس: يعيبهم ويغتابهم ـ ( معجم الوسيط،944)
نقد جس کو ہم تنقید باب تفعیل سے کہتے ہیں عربی نہیں اردو میں مستعمل ہے۔ اس کے معنی کھرے کھوٹے کی پہچان کرنا اور کسی چیز کی اچھائی وبرائی کو پرکھنا ہے۔ تنقید ایک اصطلاح ہے جس میں کسی شخص یا چیز کے منفی اور مثبت پہلو گنوائے جاتے ہیں؛لیکن دور جدید میں تنقید کو صرف منفی پہلو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے، عیب جوئی اور غیبت ہوتی ہے اور اس کو تنقید کہاجاتاہے۔ جب کہ اصطلاح میں اسکو تنقید نہیں؛ بل کہ تنقیص وتذلیل اور غیبت کہتے ہیں۔
تنقید کے دو پہلو:
حقیقی تنقید کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ تنقیدبرائے اصلاح ہو، وہ تنقید کے لائق ہو، اور اس میں اخلاص ہو، تو جس پر تنقید کی گئ ہے اس کو فائدہ ہوتا ہے، دوسرے تنقید کی ضرورت ہی نہیں تھی یا تھی مگر تنقید اصلاح کی غرض سے نہیں کی گئ، تو اس سے دل شکنی ہوتی ہے، اور یہ تنقید نہیں تنقیص کے حکم میں ہوجاتی ہے۔ آج کل یہی قسم رائج ہے۔
اب آئیے موجودہ دور کا رخ کرتے ہیں، ہم صرف بات کریں گے اکابر علما پر تنقید کی، قضیۂ جمیعت ہویا قضیۂ امارت شرعیہ بہار، قضیۂ دارالعلوم پٹنہ ہو یا مسلم پرسنل لا کا قضیہ ہو، ہمارے قلم کار جو نقد وتبصرہ کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، جن کا قلم صرف تنقید ہی لکھتا ہے، ان کی تنقید برائے تنقید، برائے اصلاح ہوتی ہے یا برائے تنقیص، اس کا اندازہ تو تحریر پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہےاور پھر اس پر آنے والے تبصرے جس میں نام لےکر ان کی عزت وناموس سے کھیلا جاتاہے اللہ کی پناہ۔ اور کہا جاتاہے کہ یہ نہی عن المنکر اور تنقید برائے اصلاح ہے۔
علما پر نقد وتبصرہ کرنے سے پہلے اس معاملہ میں جس میں آپ نقد کرنا چاہتے ہیں، اس عالم دین کا موازنہ اپنی زندگی، اپنے معاملات سے کرنا چاہیے، اگر وہ آپ سے کم تر ہیں تو تنقید کرنے کا حق ہے، تنقیص پھر بھی جائز نہیں، اگر آپ کسی کو اپنی تنقید کی زد پر لینا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا موازنہ پانچ چیزوں میں کریں: (1) علم وعمل،(2) تقوی، (3) خدمت خلق، (4) خدمت دین، (5) مقبولیت، اور پانچویں قسم ایسی ہے کہ اس میں شروع کی چاروں قسمیں آجاتی ہیں، کیوں کہ عوام یا خواص میں وہی مقبول ہوتا ہے جو اللہ کے یہاں مقبول ہو عمل علم کے مطابق ہو، تقوی، خدمت دین وخدمت خلق سب کا حامل ہو، اور جو اللہ کا بندہ بندوں کا مقبول ہوگا،یقینی طور پر وہ اللہ کا ولی ہوگا،حدیث شریف میں آیا ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:” عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ قال:” إذا أحب الله العبد نادٰى جبريل: إنَّ الله يحب فلانًا فأحبْهُ۔ فيحِبُّهُ جبريل۔ فينادي جبريل في أهل السمآء: إنَّ الله يُحِبُّ فُلانًا فأحبُّوهُ۔ فيحبه أهل السمآء، ثم يو ضع له القبول في الأرض”۔ ( بخاري،3209)
علامہ عینیؒ فرماتے ہیں: کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے جاننے پہچاننے والے اکثر لوگوں کے نزدیک وہ مقبول ہوتا ہے، اور لوگ اسکا ذکر خیر کرتے ہیں، دوسرا معنی یہ ہے کہ زمین والوں کے دلوں میں اللہ پاک اس کی محبت ڈال دیتے ہیں کہ وہ ان کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ اور اس حدیث میں یہ نکتہ ہے کہ جس کی محبت دلوں میں ہوتی ہے، وہ اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔ ( عمدۃ القاری،15/195)
ابن حجرؒ لکھتے ہیں: "يوضع له القبول” الله تعالى كے قول: (فتقبلها ربها بقبول حسن)کے قبیل سے ہے، قعنبی کی روایت میں ہے کہ اس کیلیے محبت، رضا، قبول رکھ دیا جاتا ہے، لوگ اس سے راضی، ان کو محبوب رکھتے ہیں، اور لوگوں کا میلان اسکی طرف ہوجاتا ہے، اور اس سے یہ مسئلہ نکلا کہ لوگوں کے دلوں میں محبت کا ہونا اللہ کے نزدیک محبوب ہونے کی علامت ہے۔( فتح الباری،10/337-338)
اس حدیث سے اللہ کے نزدیک بندہ کے مقام ومرتبہ کا علم ہوا، کہ اس بندہ کا شمار مقربین میں ہے، اور مقربین، علما اور اولیا اللہ کو تکلیف دینے پر سخت وعید آئی ہے؛چنانچہ نبی کریم ﷺ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتے ہیں:” من عادٰی لي ولیًا فقد آذنته بالحربِ”۔ ( بخاری،6502) عینیؒ فرماتے ہیں کہ ولی کا مطلب عالم باللہ ہے جو طاعات خداوندی کی پابندی کرتا ہے، اپنی عبادت میں مخلص ہے، ( ولی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ حلیم وبرد بار ہوتا ہے،اور عداوت سے بچتاہےاور کم فہموں سے درگزر کا معاملہ کرتا ہے)۔ اللہ پاک ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتاہے۔ (عمدۃ القاری،23/134)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عالم اور مقربین خدا کو تکلیف دینا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔
یوں تو زبان ہاتھ یا پاؤں سے کسی کو بھی تکلیف دینا حرام ہے، لیکن علماکے معاملہ میں اس کی حرمت اور شدید ہوجاتی ہے، پھر یہ کہ آج کل جو تنقید کی صورت نکالی گئ ہے، غیبت کی وعید میں بھی داخل ہے،جیسا کہ اوپر تحقیق میں گزرا کہ اس کا معنی غیبت کرنا بھی ہے۔
اس لیے خدارا اکابر پر نقد وتبصرہ کرنے سے پہلے سوچیں کہ کہیں یہ نقد وتبصرہ ہمارے اعمال کے حبط ہونے کا سبب تو نہیں بن رہا ہے۔ ان کی تنقیص تو نہیں ہورہی ہے، اس نقد کی وجہ سے امت کا اجتماعی نقصان تو نہیں ہے، یہ نقد آپسی انتشار کا سبب اور دشمنوں کو ایندھن تو فراہم نہیں کر رہا ہے؟
ان دنوں صورت حال یہ ہے کہ ہم پارٹی پارٹی، انجمن انجمن اور گروپ گروپ کھیلنے میں لگے ہیں، جو مولانا محمود مدنی کی جمیعت سے متفق نہیں وہ ان پر بےجا تبصرہ کر رہاہے، جو مولانا ارشد مدنی سے متفق نہیں وہ ان پر طعن وتشنیع کر رہاہے، جو مولانا ولی رحمانی صاحب کا مخالف ہے وہ ان کے پیچھے پڑاہے اور اس مخالفت کی دوصورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں، کبھی تو براہ راست ان اکابرین کو نشانہ بنایا جاتاہے اور کبھی جمعیت امارت یا پرسنل لا کے واسطے سے ان پر طعن وتشنیع کی جاتی ہے ۔ ( اللہم احفظنا) اور اس طور پر ہم اپنی انفرادی واجتماعی قوت کو ضائع کرنے کی کوشش میں پڑے ہیں، اپنی نیکیاں دوسرے کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔
علما کی ناقدری، عوام کو ان سے برگشتہ کرنا بربادی کی طرف پہلا قدم ہے؛اس لیے علماو قائدین کی قدر کیجیے، ان کے کاموں کو سراہیے، وہ جبریل نہیں، نبی نہیں ہیں کہ معصوم ہوں، ہاں اللہ کے یہاں مقرب ہیں؛ اس وجہ سے احترام کے مستحق ہیں۔
تنقید کی حقیقت
previous post