تازہ بہ تازہ، سلسلہ 15
فضیل احمد ناصری
کرتا ہوں سحر اپنی،اشکوں سےوضوکرکے
رکھتا ہوں مسلسل میں،دل اپنا لہو کر کے
عشقِ مئے گلگوں ہے، یا بادہ پرستی ہے
جو ظرف ملے تم کو، رکھتے ہو سبو کر کے
جذباتِ صحابؓہ تو پہلے بھی نہ تھے ہم میں
ایماں بھی گنوا بیٹھے، ہم نذرِ عدو کر کے
وہ لوگ ہی قائد ہیں، اس دورِ جہالت میں
القاب جو رکھتے ہیں،خود زیبِ گلو کر کے
اے پیرِ مغاں تو ہی اس شغل سے باز آجا
رکھا ہے زمانے کو، مصروفِ کدو کرکے
یک جان ہوا دیکھو، کفار کا شیرازہ
تقسیم ہوئے مسلم، فرقِ من و تو کر کے
ملت کی قبا یارب! کچھ چاک ہوئی ایسی
سب چور ہوئےتھک کر،دامن کو رفو کرکے
تنظیم کے عنواں پر تخریب کے میلے ہیں
احباب مگرخوش ہیں،مدحت میں غلوکرکے
اللہ! مسلماں کو وہ جوش عطا فرما
عالَم کو ہلا ڈالیں، پھر نعرۂ ھو کر کے