Home نظم تم کو آتا ہے فقط خون کو ارزاں کرنا

تم کو آتا ہے فقط خون کو ارزاں کرنا

by قندیل

تازہ بہ تازہ، سلسلہ 47
فضیل احمد ناصری
رند کا کام ہے گلشن کو بیاباں کرنا
کارِ درویش ہے صحرا کو گلستاں کرنا
حوصلہ ہار، نہ اعصاب پہ کافر کو بٹھا
کوئی دشوار نہیں عزم کو طوفاں کرنا
عہد میں تیرے ہر اک چیز گراں قیمت ہے
تم کو آتا ہے فقط خون کو ارزاں کرنا
اتنے سرکش نہ بنو، اتنی تعلی نہ کرو
جانتے ہم بھی ہیں انگشت بدنداں کرنا
مصلحت زہر کی پڑیا ہے مسلماں کے لیے
تو بھی اب سیکھ کلیساؤں کو حیراں کرنا
خانقاہوں سے نکل، ہاتھ میں شمشیر اٹھا
اپنے جذبے کو سکھا، جنگ کا ساماں کرنا
تم تو خود کفر کی آغوش میں جابیٹھےہو
کیسے ممکن ہے زمانے کو مسلماں کرنا
فرصتِ عمر بہت کم ہے، مہم کو اٹّھو
کارِ بوبکرؒ نہیں، گھر کو چراغاں کرنا
میں محمدؑ کا سپاہی ہوں، مجھے لڑنے دو
میری قسمت میں کہاں جشنِ بہاراں کرنا

You may also like

Leave a Comment