تازہ ترین، سلسلہ 86
فضیل احمد ناصری
یہ سمجھ لو کہ ترےدل کوسنوارا نہ گیا
جذبۂ دیں جو ترا اب بھی ابھارا نہ گیا
تم نہ قرآن نہ پڑھوگےتو پڑھےگاپھر کون
کسی حیواں کے لیے اس کو اتارا نہ گیا
ان ادیبوں نے زباں کو تو نکھارا ہے بہت
ان سے اپنے ہی ضمیروں کو نکھارا نہ گیا
خویش ہوں یا کہ ہوں درویش،سبھی ہیں نالاں
جو تری بزم سے نکلا، وہ دوبارا نہ گیا
ہم نے کیا کیا نہ دیا اپنے وطن کو، لیکن
ہم کو عزت سے کسی دن بھی پکارا نہ گیا
سچ نےکھائی ہےہمیشہ ہی جفاؤں سےشکست
ہم سے جیتا نہ گیا، تم سے بھی ہارا نہ گیا
زخم کھائےہوئےبیٹھےہیں خطاؤں پہ،مگر
ہم سے اپنی ہی طبیعت کو سدھارا نہ گیا
اک صدی ہونے کو آئی ہے دغائیں کھــــــاتے
بت کے بندوں کا مسلماں سے اجارا نہ گیا
ہم حکومت میں،نہ شوکت میں،نہ غیرت میں فضیل!
ظــــــلم والوں کا مگر ذوقِ اشــــــارا نہ گیا
تم نہ قرآن پڑھوگے تو
previous post