Home تجزیہ تعریف، تاریخ، تحقیق اورہندوستانی ڈیموکریسی

تعریف، تاریخ، تحقیق اورہندوستانی ڈیموکریسی

by قندیل

شمس تبریز قاسمی ،موتیہاری 
26/جنوری کی تاریخ آتے ہی ہرکوئی یوم جمہوریہ کی تیاریوں میں مصروف نظر آنے لگتا ہے :ملک کے دانش ور طبقہ سے لے کر چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں تک کے دل میں جمہوریت کی اہمیت و صداقت اور ہمہ گیریت کی تقریب میں شریک ہونے اور جشن منانے کا شوق موجزن ہونے لگتا ہے. جہاں جائیے وہیں قومی جھنڈا "ترنگا” لہرانے کی سرگرمیاں چل رہی ہوتی ہیں. اس عزم اور تیاری میں جس طرح شہر کا بچہ بچہ شریک ہوتا ہے؛ اسی طرح گاؤں اور دیہات کے بچے بھی کانوں میں رس بھرنے والی قومی ترانے سننے کو بے قرار وبےتاب رہتے ہیں .ایک سیاسی اور سماجی لیڈر جس طرح یومِ جمہوریہ کو خوب صورت انداز میں منانے کے لیے تمام تر کوششیں کرتا ہے؛ اسی طرح شہر سے ہٹ کر دور دراز رہنے والے بوڑھے، نوجوان اور بچے بھی پرجوش رہتے ہیں ـ
آئیے! آج ہم بات کرتے ہیں، کہ حکومت کیسے وجود میں آئی ہے وہ کیا محرکات ہیں، جن کی وجہ سے لوگوں کو اس کی ضرورت پڑی اور ان حکومتوں میں "جمہوریت” کس کو کہاجاتا ہے؟ اس کا معنی و مفہوم اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ جمہوری ملک میں رہنے والے عوام کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور جمہوری حکومت کے قیام میں عوام کا کیا رول ہے، وغیرہ ـ
ابتدا میں انسان جب دنیا میں آیا، تو کوئی حکومت نہیں تھی، کوئی ریاست نہیں نہیں تھی؛ بل کہ سب لوگ کسی حکومت کے بغیر اپنے اپنے طور پر، انفرادی زندگی گزارتے تھےاور اپنے مفاد کے مطابق جس طرح چاہتے، کام کرتے. اس حالت کو "علم سیاست”کی اصطلاح میں "فطری حالت” سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کو انگریزی میں "State of Nature” کہا جاتا ہے؛ لیکن فطری حالت میں ظاہر ہے کہ افراد کے مفادات ایک دوسرے سے باہم ٹکراتے ہوں گے، کہ ایک کا مفاد یہ ہے، کہ ہے کام کرے؛ جب کہ دوسرے کا مفاد یہ ہے، کہ اس کام کو نہ کیاجائے، چناں چہ اس طرح آپسی لڑائی ہوئی، اس سے تنگ آکر لوگوں نے آپس میں مل کر یہ سوچا، کہ کسی طرح کوئی ایسانظام بنایا جائے، کہ یہ مفادات کا ٹکراؤ جھگڑوں کا سبب نہ بنے، چناں چہ انھوں نے ایک معاہدہ کیا، کہ ہم سب کو کسی خاص نظام کے ما تحت زندگی گزارنی چاہیے. پندرہویں صدی عیسوی میں یہ نظام "معاہدہ عمرانی” کے نام سے معروف ہوا،جس انگریزی میں "Social Contract” کا نام سے جانا جاتا ہےـ
اس معاہدہ عمرانی کے نتیجے میں اور اس کی بنیاد پر دو مختلف متضاد نظام ہائے سیاست وجود میں آئے، دونوں معاہدہ عمرانی کی بنیاد پر ہی ہیں؛ لیکن دونوں کی نظریہ آپس میں بالکل متضاد اور الگ ہیں:ایک "مطلق العنان حکمرانی” اور ایک نظام وجود میں آیا "عوامی حکومت” کا. یعنی ابتدا میں کچھ لوگوں نے نظریہ معاہدہ عمرانی کی تشریح اس طرح کی، کہ چوں کہ افراد نے خود اپنے مفاد کے لیے اپنے تمام حقوق اور اپنے تمام اختیارات ریاست کے حوالے کر دیے ہیں، تو اب ریاست "مطلق العنان حکمران "ہے اور اس کو مطلق العنان ہی ہونا چاہیے اور مطلق العنان ہونے کی وجہ سے اس کو تمام افراد پر کنٹرول کرنا چاہیےـ
پندرہویں صدی عیسوی تک معاہدہ عمرانی کی اسی تشریح پر عمل ہوتا رہا اور یہی نظام کار فرما رہا؛ یہاں تک کہ "فرانس” میں علم سیاست کے تین فلسفی نے جنم لیا، جو علم سیاست میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں.( 1)”تھامس ہابس”(Thomas  Hobbes)(2)لاک (Lock) (3)”روسو”(Roussou).ان تینوں نے علم سیاست کے بارے میں جو کتابیں لکھی ہیں، وہ بعد کے مصنفین کے لیے روشنی بنیں. ان تینوں کا زمانہ تقریباً قریب قریب ہی ہے. Hobbes  اور Lock؛ دونوں تو معاہدہ عمرانی کی اسی تشریح کے قائل تھے، کہ معاہدہ عمرانی کے نتیجے میں جو حکومت وجود میں آئی ہے، وہ مطلق العنان ہونی چاہیے اور مطلق العنان حکم راں کا ہر حکم واجب الاطاعت ہونا چاہیے؛ لیکن تیسرے نمبر پر جو فلسفی آیا یعنی "روسو”، اس نے اِس معاہدہ عمرانی کی سب سے الگ ہٹ کر، بالکل جداگانہ تشریح کی. اس نے معاہدہ عمرانی کی یہ تشریح کی، کہ ریاست خود سے وجود پذیر نہیں ہوئی ہے؛ بل کہ عوام نے مل کر باہمی معاہدے کے ذریعے اس کو وجود دیا ہے، لہذا جو بھی حاکم یا سربراہ ہے، وہ درحقیقت اس کے اقتدار اور اختیار کا سرچشمہ خود عوام ہی ہیں. عوام ہی نے اسے با اختیار اور با اقتدار بنایا ہے. چناں چہ اس کا، کام یہ ہے کہ وہ عوام کی نمایندگی کرے اور عوام کی مرضی کے مطابق اپنی حکومت کو چلائے. اور یہ وہی شخص ہے، جس کے افکار کی وجہ سے "فرانس” میں انقلاب آیاـ
جمہوریت کا لفظ سب سے پہلے "افلاطون نے استعمال کیا ہے، جس کا  زمانہ حضرت عیسی علیہ السلام سے تقریباً 400 سال پہلے کا ہے. اس نے اپنے استاذ” سقراط” کی تعلیمات کے ساتھ اپنی آرا کا اضافہ کرکے ایک کتاب تالیف کی، جس کا نام” جمہوریہ”رکھاـ
جمہوریت کا لفظ درحقیقت ایک انگریزی لفظ "Democracy” کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں بھی یہ یونانی زبان سے آیا ہے. اور یونانی زبان میں "Demo” عوام کو کہا جاتا ہے اور "Cracy” "حاکمیت” کو کہتے ہیں. عربی میں اس کا تجمہ”دیمقراطیہ” سے کیا گیا ہے. جمہوریت کی اصطلاحی تعریف "حکومت کے ایک ایسی حالت، جس میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمایندہ حکومت کرنے کا اہل ہوتا ہے. (آزاد دائرة  المعارف، وکی پیڈیا). یونانی مفکر” ہیرو ڈوٹس”(Hearodotus) جمہوریت کی تعریف میں کچھ یوں رقم طراز  ہے :
"جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے، جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں” ـ
سابق امریکی صدر "ابراہم لِنکَن” نے ان لفظوں میں جمہوریت کی تعریف کی ہے، جو تمام تعریفوں میں سب سے معتبر مانی گئی ہے:
"Government of the people, by the people, for the people” یعنی عوامی کی حکومت، عوام کے ذریعے عوام پر
یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے؛ لیکن وہاں جمہوریت کا جو تصور تھا، وہ نسبتاً سادہ اور محدود تھا:سادہ بایں معنی کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں، چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل تھی. ایک شہر مستقل حکومت ہوا کرتا تھا، دوسرا شہر دوسری مستقل حکومت. وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھا کہ بادشاہ خاص خاص معاملوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کرلیتا، جب ساری آبادی اکٹھا ہوجاتی، تو ان کے سامنے بادشاہ اپنی بات رکھتا کہ میں یہ پالیسی بنانا چاہتا رہا ہوں. آپ کی کیا رائے ہے؟ اور جو بھی لوگوں کی رائے ہوتی، اس پر عمل کیا جاتا تھا. وہاں جمہوریت کا نظام اتنا ہی سادہ تھا؛ اس لیے وہاں کوئی ایسا دستور نہیں تھا، کہ فلاں معاملے میں منظور فلاں سے لی جائے گی اور فلاں معاملے میں نہیں لی جائے گی. لیکن یہ بات بدیہی ہے کہ ساری آبادی کو جمع کرکے ان سے کسی بھی قانون کے بارے میں معلوم کرنا، یہ وہاں ممکن ہے، جہاں ملک چھوٹا ہو اور آبادی کم ہو؛ مگر جہاں ملک بڑا ہوگا آبادی کی تعداد بھی زیادہ ہو، تو وہاں سب لوگوں کو جمع ہونا ممکن نہیں رہے گا. چناں چہ جب ملک بڑے بڑے قائم ہوئے جیسے:روم کی سلطنت. اس کی حدودِ سلطنت بڑی وسیع تھیں اور آبادی بھی بہت زیادہ تھی، تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں رہی، جو یونان کی شہری ریاستوں میں ممکن تھی، لہذا وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک باقی رہ گیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلسِ شوری بنا لیتا تھا اور جب چاہا مجلسِ شوری سے مشورہ لیا اور جب چاہا خود سے کسی بھی معاملے میں فیصلہ کردیا. اس کا انجام یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ جمہوریت کا یہ تصور، کہ عوام کو پالیسیوں میں حصہ دار بنایا جائے، عملا مفقود ہوگیا اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی. اس طرح یونان کی ریاستوں کے بعد جمہوریت کا تصور ہی ختم ہوگیا
جمہوریت کی نشأةِ ثانیہ:
دوبارہ اس نظام حکومت کا احیا 18 ویں صدی کے اوائل میں میں ہوا، اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی، جس کو آج ” Liberal democracy” یعنی آزاد جمہوریت کہا جاتا ہے. اب دنیا میں اسی جمہوریت کا چلن ہےـ
Liberal democracy کی صورت گری جن مفکرین نے  کی اور جن کو "جدید آزاد خیال جمہوریت” کا بانی تصور کیا جاتا ہے، وہ تین فلسفی ہیں :
(1)”وولٹائر”(Voltire) (2) "مونٹیسکو "(Montesquiue) (3)”روسو”(Rousseau). یہ تینوں افراد فرانس کے ہیں، ان کے متعلق یہ بیان کیاجاتا ہے ،کہ انھیں لوگوں نے اپنے اپنے نظریات اور فلسفے کی بنیاد پر ایسے افکار دنیا میں پھیلائے، جس کے نتیجے میں "Liberal democracy وجود میں آئی ـ
ہندوستان میں جمہوریت :
ہندوستان میں 1935ء سے جو برطانوی ایکٹ نافذ تھا، وہ 26/1950 کو منسوخ ہوگیا اور جمہوری نظام کا قیام عمل میں آیا.یہ دستور کیبنٹ مشن پلان 1946ء کے وجود میں آئی. آئین ساز اسمبلی کے ذریعے بنایا گیا تھا اس دستور کو وضع کرنے سے نافذ ہونے تک تین سال کا وقت اور ایک کروڑ روپے صرف ہوئے تھے میں. پہلے غیر منقسم ہندوستان میں الیکشن کے ذریعے دو سو بانوے(292) نمایندوں کا انتخاب عمل میں آیا :208 نمائندے کانگریس اور 74 نمائندے مسلم لیگ کے منتخب ہوئے اور 93 نمائندے نوابوں اور راجاؤں کی طرح سے نام زد کیے  گئے؛ اس طرح کل 393 نمائندوں سے یہ اسمبلی وجود میں آئی. 9/دسمبر 1946ء کو اس کا پہلا اجلاس ہوا، جس سے میں سب سے معمر رکنِ اسمبلی "ڈاکٹر سچتا نند سنہا” کو اس اسمبلی کا عارضی صدر چناگیا. 11/ستمبر کو تمام اراکین نے اتفاق رائے سے "ڈاکٹر راجندر پرشاد” کو اسمبلی کا مستقل چیئرمین بنایا. اسمبلی نے آئین سازی کی غرض سے 13 کمیٹیاں بنائیں. ان کمیٹیوں نے اپنے مسودات تیار کیے، بعد میں ایک سات رکنی ڈرافٹ کمیٹی نے، جس کی صدارت "ڈاکٹر بھیم راؤ امیبیڈ کر” کر رہے تھے، ان مسودات کے گہرے مطالعے کے بعد آئین کا نیا مسودہ تیار کیا. 4/نومبر 1947 کو یہ مسودہ آئیں بحث و نظر، ترمیم وتنسیخ اور حک و اضافے کے لیے آئین ساز اسمبلی میں پیش ہوا. جنوری 1948ء کو یہ مسودہ عام لوگوں کے لیے شائع کردیا گیا. ترمیم و تنسیخ کے لیے دو ہزار سے زائد تجاویز موصول ہوئیں. 26/جنوری 1950ء کو مسوده آئین دستور ساز اسمبلی میں پیش ہوا اور ایک کے علاوہ تمام اراکین نے 26/جنوری 1950ء کے اجلاس میں، اس کی ہندی اور انگریزی کاپیوں پر دستخط کرکے اسے سندِ قبولیت سے سرفراز کیا، صرف” مولانا حسرت موہانی” نے لکھاکہ :
یہ آئین برطانوی دستور کی نئی توسیع شدہ شکل ہے، اس سے آزاد ہندوستانیوں کا اور آزاد ہندوستان کا مقصد پورا نہیں ہوتا”.
چناں چہ 26/جنوری 1950ء کو ہندوستان میں جمہوری قانون کا نفاذ عمل میں آ گیا، جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے، کہ اس ملک میں مذہبی آزادی، شخصی آزادی، تہذیب و ثقافت وتعلیمی کا حقوق کی پاس بانی، جائداد کے حقوق اور انصاف کا حق ہر ہندوستانی بلا تفریقِ مذہب وملت برابر حاصل ہوگا؛ اقلیتوں کو خاص کر اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، کہ ان کے دن و مذہب اور ان کے تشخص جی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی. مگر افسوس کہ جس کی یقین دہانی تھی، وہی بات  ختم  ہوتی  گئی ـ
آج 26/جنوری 2018 کو ہم یومِ جمہوریہ منا رہے ہیں؛ لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا جمہوریت کے تقاضے پہ عمل کیا جارہا ہے؟ کیا اس بات کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے، کہ حکومت عوام کے مفاد کے لیے استعمال کی جائے گی؟ تو افسوس سے سر جھکا نے کو جی چاہتا ہے، کہ بعض گوشے ایسے ہیں، جن میں صحیح معنوں میں جمہوریت کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے. اپنا ملک ہندوستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے، کہ اس ملک کی خوب صورتی یہی ہے کہ اس ملک میں سب مذہب کے ماننے والے چین وسکون کے ساتھ زندگی بسر کر تے ہیں، جہاں اقلیت و اکثریت کا کوئی امتیاز نہیں ہے؛ لیکن محسوس یہ ہوتا کہ اپنا یہ گنگا جمنی تہذیب کے حامل ملک کا رخ کچھ لوگ غلط سَمت کی طرف موڑ رہے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں زہر کی بیج بو نے میں مصروف ہیں. کبھی ایک مخصوص طبقے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے جارہے ہیں، تو کبھی ان کو بدنام کر نے کی کوششیں کی جارہی ہیں. ان تمام باتوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے، کہ ان لوگوں نے شاید پہ پڑھ لیا ہے کہ جمہوریت "مطلق العنان حکم رانی ” کا ہی نام ہے؛ تبھی تو من چاہی حکومت کر رہے ہیں.
اللہ کرے کہ ان عقل کے ماروں کو یہ عقل آئے کہ اس طرح ملک ہمارا برباد تو ہوسکتا ہے لیکن آباد نہیں ہوسکتاـ
ریسرچ اسکالر شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم، دیوبند

You may also like

Leave a Comment