احتشام الحسن، چکوال
جھوٹ کو اتنا عام کرو کہ سچ لگنے گے۔باطل کو اتنا پھیلاؤ کہ حق دکھنے لگے۔یہ وہ اصول ہے جسے آج کل کا میڈیا دل و جان سے اپناتا ہے۔یہی اصول قیام پاکستان کے بعد ہندوستان اور قیام پاکستان کی تاریخ کے بارے میں اپنایا گیا۔قیام پاکستان کے بعد کتابوں پر کتابیں لکھی گئیں، نصاب بنا کر گھول گھول کر پلایاگیا۔فکریں خراب کی گئیں اور سوچوں کے زاویے بدل دیے گئے۔حقیقت سے اتنا دور لے جایا گیا، جہاں سچ بھی خود کو مشکوک سمجھنے لگا۔سچ اتنا کڑوا ہوگیا کہ خاموشی کو ترجیح دینے لگا۔جھوٹ کو اتنا سچ سمجھا جانے لگا کہ وہی حرف آخر ہوگیا۔جو وہ کہے اسے ماننا سب پر فرض اور جو نہ مانے وہ نشانے پر۔
ایسے میں چند حقیقت پسندوں اور جانبازوں نے ہمت کی اور سچ بولنے کی جسارت کی اور حق کو آشکارا کرنے کی ٹھان لی اور کافی حد تک اپنے عزم اور مقصد میں کامیاب ہوئے۔ان شخصیات میں سے ایک شخصیت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی ہے۔جنہوں نے ہندوستان پر کمپنی کی حکومت اور قیام پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، بل کہ اس وقت کی تحریکات کے مرکزی اور بنیادی راہنماؤں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔آپ ہمہ جہت شخصیت تھے۔درس و تدریس، تصوف و سلوک، وعظ و خطابت، تصنیف و تالیف اور سیاست و جہاد غرض ہر میدان اہم مقام رکھتے ہیں۔دارالعلوم دیوبند کی صدر مدرسی سے لے کر جمعیت علمائے ہند کی صدارت تک، سلسلہ چشتیہ میں پیر طریقت سے لے نقش حیات جیسی آپ بیتی و ہندوستان کی تاریخ نویسی وغیرہ تک ہر جگہ آپ کے علوم و معارف اظہر من الشمس ہیں اور آپ کی علمیت اور قابلیت پر بیّن ثبوت۔
تحریک آزادی کے بارے میں ماضی کی تاریخ کی روشنی میں آپ ایک خاص رائے رکھتے تھے۔یہی جمعیت علمائے ہند کی رائے تھے۔اسی رائے کو آپ نے اپنی آپ بیتی میں مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔جن خدشات کا آپ اور آپ کے ہم فکر راہنماؤں نے اظہار کیا تھا آج وہ ہم پر بیت رہے ہیں۔یہی ہوتی ہےسیاسی بصیرت۔یہ اہل اللہ دل کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے، جب کہ ہم ظاہری آنکھوں پر یقین کر بیٹھے۔میدان میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، اصل ہار جیت وہ ہوتی ہے جو اثرات اور نتائج بیان کرے۔آج جب ہم ان شخصیات کی تحریرات اور خطبات کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بول رہے ہیں اور ہم پر بیت رہی ہے۔
اس وقت کے حالات ایک وہ ہیں جو ہمیں نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں اور ایک وہ جو یہ حقیقت پسند بیان کرتے ہیں، ان کو اگر تصویر کا دوسرا رخ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ چوں کہ ان حالات اور واقعات میں خود موجود تھے؛ اس لیے آپ کی بات سند کا درجہ رکھتی ہے اور عینی شاہد کی گواہی دنیا کی کوئی عدالت رد نہیں کر سکتی۔حضرت مدنی رحمہ اللہ نے ان حالات کو اپنی آپ بیتی میں مفصل طور پر پیش کیا ہے۔زیر نظر کتاب بات ان ڈائریوں کا مجموعہ ہے، جنہیں ان حالات و واقعات کے وقت آپ اپنے پاس رکھتے تھے اور خوب اہتمام سے مشاہدات، واقعات اور نتائج کو درج کرتے تھے۔جسے ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری صاحب نے مولانا ارشد مدنی زید مجدہم سے حاصل کرکے شائع کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ہندوستانی تاریخ پر آپ کا مطالعہ اور کام کافی وسیع ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس پر مفصل کام کیا ہے۔بہت محنت سے تاریخی مآخذ تک رسائی حاصل کر کے ڈائری کو پس منظر کے ساتھ پیش کیا ہے۔تفصیلی مقالہ جات کو آخری تین جلدوں میں جمع کیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ متحدہ ہندوستان، قیام پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد انڈیا میں مسلمانوں کی حالت زار پر ایک مفصل اور مبنی بر حقیقت تاریخ مرتب ہوگئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
کامیاب قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے ماضی سے سبق لے کر حال گزاریں اور مستقبل کو سنواریں۔ماضی سے سبق لینے کے لیے ماضی کو پڑھنا ناگزیر ہے۔لکھا بہت کچھ جاتا ہے، مگر حقیقت تک پہنچنا اور سچ کو پہچان کر اسے سمجھنا یہی عقل مندی اور دانش مندی ہے۔میں ہر گز یہ نہیں کہوں گا کہ آپ صرف اسی کو پڑھیں اور آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں۔لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ تصویر کا وہی رخ سچ مان کر بیٹھ جائیں جو ہمیں دکھایا جاتا ہے۔تصویر کے دوسرے رخ کو بھی پڑھیں اورسمجھیں پھر دونوں کو سامنے رکھ کر حقیقت کے اصولوں پر پرکھیں ـ ان شاء اللہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی آپ کے سامنے ہوگا۔