عزیز سہولہ
ریسرچ اسکالر۔ جے این یو ۔ نئی دہلی
انسان کی پیدائش کا مقصد خد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔مختلف ادیان میں رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے رہے ہیں جن میں سے تصوف اور بھکتی دو اہم طریقے ہیں۔جہاں ایک طرف تصوف اسلامی عبادت و ریاضت کا طریقہ ہے تو وہیں دوسری طرف بھکتی خالص ہندومت میں قرب خداو ندی کے حصول کا ذریعہ خیال کیا جاتا رہا ہے۔
تصوف دراصل نام ہے تزکیہ نفس کااور احسان کا ، عبادت و ریاضت کا، مجاہدہ و مراقبہ کا، دنیا سے علیحدگی اختیار کرکے یاد خدا میں محو ہونے کا، جبکہ بھکتی کا تصور اپنے آپ کو مصیبت و مشقت میں ڈالنا، دنیا و مافیہا سے بالکل بیزار ہوکر ایسی جگہ عبادت وریاضت کے لیے تلاش کرنا جہاں کوئی شناسانہ ہو۔گویا یہ رہبانیت اور سنیاس کی ایک شکل ہے جو ہندومت میں کافی مقبول رہی ہے۔
ہندومت میں بھکتی کے مقاصد میں نروان حاصل کرنا، مایا جال سے مکتی حاصل کرنا، اگر اگلا جنم ہوا تو انسانی جسم میں عود کرآنا اور اچھے جیون کی کلپنا کرناوغیرہ شامل ہیں جبکہ اسلام میں تصوف کا مقصد عبادت و ریاضت اور رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ بندوں کے ساتھ حسن سلوک ، رواداری ، یتیموں ، فقراء و مساکین اور دیگر خلق خداوندی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا ہے ۔ تصوف کی اہمیت کے مد نظر پروفیسر محسن عثمانی لکھتے ہیں:
"تصوف کی حقیقت کے لیے قرآن میں تزکیہ نفس اور حدیث میں احسان کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت تصوف کے بغیر شریعت کا ظاہری نظام جسد بے روح اور لاشۂ بے جان ہے اور یہ روح تصوف دین کا لب لباب ہے اور یہ اس قد ر بیش قیمت ہے کہ جان دے کر بھی اس کا حصول سستا ہے
متاع وصل جاناں بس گراں است
گر ایں سودابجاں بودے چہ بودے”
یا مرزا غالب کے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
قرآن مجیدمیں تزکیہ نفس پر بہت زور دیا گیا ہے اس لیے قلب کی صفائی اور اچھے اخلاق کے حصول پر نجات اور کامیابی کا انحصار ہے۔قرآن کی اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے "قد افلح من زکّٰھا وقد خاب من دسّٰھا” یعنی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اپنے نفس کو خراب اور گندہ کیاوہ ناکام اور نامراد ہوا۔ اس لیے تصوف کے حاملین ہمیشہ تزکیہ نفس اور مکارم اخلاق کے حصول کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تصوف جن خصوصیات اور کیفیات سے عبارت ہے ان کی حیثیت جسم میں روح کی ہے ۔
مماثلت
تصوف اور بھکتی کی تعلیمات میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں جن کا اندازہ ان کے عہد کے مطالعے سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں تحریکات کا دور ایک نہیں رہا مگر پھر بھی کچھ وقت کے لیے ایک دوسر ے کی معاصررہی ہیں ۔ ہندوستان میں تصوف کی ابتداتقریبا گیارہوں صدی میں ہوئی جبکہ ہندوستان سے باہر یہ دسویں صدی میں مقبولیت حاصل کرچکا تھا۔بھکتی جو ہندومت اور بدھ مت کا ملاپ تھی او ر بدھ مت سے بہت زیادہ متاثر تھی جنوبی ہندوستان میں آٹھویں صدی سے ہی اس کی شروعات ہو چکی تھی۔دونوں کا علاقہ بھی الگ الگ تھا جہاں انہوں نے اپنی تبلیغ کا کام انجام دیا۔ تصوف کا زور شمالی ہندوستان میں زیادہ رہا ۔ پنجاب، سندھ او ر بنگال میں سہروردی سلسلہ ، دہلی اور دوآبہ کے علاقے میں چشتیہ سلسلہ اور بہار میں فردوسی سلسلہ کا بہت زیادہ زور پر رہا جبکہ جنوبی ہند سے شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ تمام ہندوستان میں پھیل گئی۔اس لیے انہوں نے اپنی تبلیغ مختلف زبانوں میں کی ، ان کی تعلیمات کے طور طریقے مختلف تھے مگر ان کے خیالات اور تعلیمات ایک تھیں۔تصوف اور بھکتی مندرجہ ذیل نکات میں مماثلت رکھتے ہیں:
*۔ وحدانیت:
تصوف اور بھکتی دونوں میں یہ نظریہ مشترک ہے کہ خدا ایک ہے اور مراقبہ و عبادت کے ذریعے ہی اس تک رسائی ہو سکتی ہے، خدا کے بہت سارے نام ہیں مگرپھر بھی وہ ان سارے ناموں کے باوجود ایک ہے۔یہ دونوں مذاہب یعنی اسلام اور ہندومت کے درمیان کی کھائی کو اس بات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور ایک جیساہے اگر چہ اس کے بہت سے نام ہیں۔
*۔ استاد و شاگرد کا رشتہ :
دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرب الٰہی کاحصول اس وقت زیادہ ممکن ہے جب کسی پیر یا گرو سے رہنمائی حاصل کی جائے جو ان تک علم کی رسائی کا ذریعہ ہو اور قرب خداوندی کے حصول کے راستوں کی طرف رہنمائی کرے۔ اس طرح دونوں میں پیر اور گرو کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہیں سے پیر مرید اور گرو ششیہ کی روایت شروع ہوئی۔یہ خیال کیا جاتا رہاہے کہ تصوف اور بھکتی کے طریقے میں ایسے روحانی پیر یا گرو کی رہنمائی بہت ضروری ہے جو خود علم رکھتا ہو اور اس مقام پر پہنچ گیا ہو کہ جہاں وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہو سکے۔ پیر مرید کے رشتے میں مرید کو مجاہدہ کے راستے پر چلنا ہوتا ہے خواہ وہ اسمائے خداوندی کاورد اور ذکر کرکے ہو یا جنانا(وہ علم جس کا ذکر ویدوں اور اپنشدوں میں آیا ہے۔ یہ وہی علم ہے جس کو کرشن جی نے راج ودیا کہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی پوری زندگی میں صرف یہی علم حاصل کرے اور اسی کی پریکٹس کرے تو اس کا مقصد پورا ہو گیا) کے ذریعے۔گرو ششیہ پرمپرا میں ششیہ کو پہلے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے اورساری زندگی بھکتی کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔ گرو کے الفاظ اس کے لیے خدا کے الفاظ ہوتے ہیں۔گرو کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ششیہ کو سیوا (خدمت)، ستسنگ (نیک انسان کی صحبت اختیار کرنا) اور بھجن کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔کبیر نے پیر ومرید اور گرو ششیہ کے رشتے کی اہمیت کے بارے میں کہا ہے کہ اگر خدا اور گرو دونوں کسی ایسے انسان کے سامنے آجائیں جو معرفت حاصل کر چکا ہو تو اسے پہلے گرو کے سامنے جھکنا چاہیے کیونکہ یہ گروہی ہے جس نے اسے قابل بنایا کہ وہ اس خداکو دیکھ سکے جو خود اس کے اندر موجود ہے۔
*۔ علما ء او ربرہمنوں کی مخالفت:
تصوف اور بھکتی دونوں پرکٹّر علماء اور برہمنوں نے شدید نکتہ چینی کی ہے کیونکہ انہوں نے بھی ان کی کوئی پرواہ نہیں کہی۔ اکثر صوفیا اور بھکتی سنتوں نے بھی ان علماء اور برہمنوں پر تنقید کی ہے جنہوں نے لوگوں کو اندھیرے میں رکھا اور مذہبی صحائف کی غلط تفسیر و تشریح کی۔ دونوں میں اندھ وشواس، نسل، ذات، مذہب، جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے امتیازات کی مخالفت کی گئی ہے۔
*۔ تصوف اوربھکتی میں رسومات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے بلکہ اس کے مقابلے انسانی خدمات کو زیادہ بڑی روحانی قربانی تصور کیا گیا ہے۔حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مطابق عقیدت و دینداری اور جاں نثاری دو طرح کی ہوتی ہے ۔ایک لازمی اور دوسری متعدی۔ لازمی میں فائدہ اکیلے صرف عقیدت مند کو ہی پہنچتا ہے۔ اس قسم میں دعائیں ، اذکار، روزے، حج اور تسبیح پھیرنا وغیرہ شامل ہیں جبکہ متعدی میں دوسرے کی ضروریات کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے ، اس عقیدت مندی کا اظہار دوسروں کی ضروریات اپنے پیسے سے پوری کر کے، لوگوں کے تئیں ہمدردی اور پیار ومحبت کا اظہار کر کے کیا جاتا ہے اور اس کا اجربے شمار ہے۔8
*۔ دونوں اس بات پر زوردیتے ہیں کہ دنیاوی زندگی مایا ہے اور یہ اس کی چمک دمک انسانی جسم کی طرح فانی ہے اور یہ دوبارہ خاک میں مل جائے گا۔کہا جاتا ہے کہ انسانی زندگی ایک خواب ہے ، ہو سکتا ہے ۶۰ سال ہو ، ہوسکتا ہے ۷۰ سال ہو یا اس سے کچھ زیادہ ہو ۔ جس دن انسان مرتا ہے یہ خواب ٹوٹ جاتاہے اور انسان کو محسوس ہوتاہے کہ اس نے سارا وقت مایا کے پیچھے بھاگنے میں گنوا دیا اور اس نے وہ کام کیا ہی نہیں جس کو کرنے کے لیے اسے کہ خوبصورت جسم عطا کیا گیا تھا۔تصوف اور بھکتی کے اصولوں کے مطابق انسانی جسم میں دس دروازے (سوراخ)ہوتے ہیں جن میں سے نو تو قدرتی ہوتے ہیں لیکن دسواں دروازہ وہ ہوتاہے جہاں سے خدائی نور داخل ہوتاہے اسی کو گرو نانک نے دسم دوار کہا ہے۔
*۔ بھکتی اور تصوف کا یہ ایک نظریہ ہے کہ خدا ہر ایک انسان کے اندر ہے وہ مسجدو مندرمیں نہیں ہے۔صرف عبادت وریاضت کرنا، مقدس صحائف کو پڑھنااور رسومات پر عمل کرناخدا سے ملاپ اور معرفت حاصل ہونے کی گارنٹی نہیں ہے۔اسی وجہ سے انہوں نے انسان دوستی اور مساوات پر بھی بہت زور دیا کیونکہ ان کی نظر میں اب انسان برابر ہیں۔
*۔ مقامی زبانوں کااستعمال:
تصوف اور بھکتی دونوں کے حاملین نے اپنی تعلیمات اور تبلیغ کے لیے مقامی زبانوں کا استعمال کیا جس سے مقامی اور ورناکولر زبانوں کا فروغ ہوا۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب امیر خسرو نے فارسی اور ہندوی دونوں زبانوں میں اپنی نظمیں کہنا شروع کی تھیں۔وہ ایک مصرعہ فارسی میں لکھتے اور دوسرا ہندوی میں۔ بالکل اسی طرح ہندوستان کے مغربی حصے میں ایکناتھ اور رام دیو جسے بھکتی سنت سنسکرت کے استعمال پر سوال اٹھارہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے اگر سنسکرت کو خدا نے بنایا ہے تو پھر پراکرت کو کس نے بنایا ہے۔اس لیے تصوف اور بھکتی سے تعلق رکھنے والے تقریباتمام حضرات ہندوی زبان کا ہی استعمال کررہے تھے۔
*۔ سلسلے اور خانوادے :
تصوف اور بھکتی دونوں میں ان کے مختلف افکار و نظریات کی بنا پر مختلف سلسلے ملتے ہیں ۔ تصوف میں جیسے سہروردی، چشتی، قادریہ، فردوسی اور نقش بندی وغیرہ۔اسی طرح اس دور کی بھکتی بھی دوحصوں میں بنٹی ہوئی تھی۔ جس کی پہلی شکل جنوبی ہندوستان آٹھویں صدی کے بعد سے شنکر آچاریہ سے شروع ہوئی۔ بعد میں اس کا احیاء بارہویں صدی میں راما نجا نے کیا اور چودہویں پندرہوں صدی تک یہ سارے شمالی ہندوستان میں پھیل گئی۔اس عہد کے سب سے نمایاں بھکتی سنت نام دیو، گیان دیو، رمن دیو، ولبھ چاریہ ، ایکناتھ ، چیتنیہ، کبیر ،روی داس، رائے داس اورنانک تھے۔ ان سب کاتعلق نرگن اسکول سے تھا جبکہ بھکتی کا دوسرااسکول سگن تھا جس میں میرا بائی، سہجو بائی اور تلسی داس بہت مشہور ہوئے ہیں۔ نرگن اسکول کے برخلاف ان لوگوں نے شری کرشن اور رام کی شکل میں مورتی پوجا کی۔
*۔ خدا سے متعلق شاعری، موسیقی اور ادب کو بڑھاوا دیا۔
*۔ سماج میں موجود مروجہ رسومات پر چوٹ کی۔
تضاد و مغایرت
لیکن ان تمام مماثلتوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تصوف اور بھکتی کا مذہبی پس منظر الگ الگ ہے۔ بھکتی ایک شخصی خدا کی عبادت سے عبارت ہے اس لیے جنہوں نے شخصی خدا کی عبادت سے انکار کیاہے انہوں نے گرو میں الوہی صٖفات تلاش کر لی ہیں جبکہ تصوف میں شخصی خد ا کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا تصوف اور بھکتی کو ایک نہیں کہا جاسکتا۔ تصوف اور بھکتی کے تضا دکو مختصرا اس طرح سمجھا جاسکتا ہے:
*۔ تصوف قرآن و سنت کو چھوڑ کر خدا تک پہنچنے کی راہ نہیں ہے بلکہ اتباع سنت شریعت میں اخلاص کی راہ ہے جبکہ بھکتی نجات کی مستقل رہ تسلیم کر لی گئی ہے ۔ اس میں نہ پوجا پاٹھ کی پابندی ہے اورنہ عبادت وریاضت کی ۔ اگر عشق سچا ہے تو سچے عاشق کی نجات یقینی ہے خواہ وہ کتنا بھی گناہ گار کیوں نہ ہو۔
*۔ الوہیت:
تصوف میں قرب خداوندی تصور الوہیت میں شرکت کے ادنی سے ادنی احتمال سے بھی پاک ہے جبکہ بھکتی میں شرکت کا تصور موجود ہے۔
*۔ رسالت:
تصوف اور بھکتی میں عقیدہ توحید کی طرح عقیدہ رسالت میں بھی تضاد ہے ۔ اسلام میں انبیاء ور سل کے مبعوث ہونے کا عقیدہ ہے جبکہ بھکتی میں خدا اوتار کی شکل میں انسانی جسم میں ظہور پذیر ہوتاہے۔
*۔ آخرت:
دونوں میںآخرت کے بارے میں بھی تضاد ہے۔ تصوف کے مطابق ایک دن سب کو مرنا ہے اور ایک مقررہ وقت پر سب کو دوبارہ زندہ کیا جا ئے گا، حساب کتاب کیا جائے گا اور اچھے برے اعمال کے حساب سے اچھی یا بری زندگی ملے گی جو ابدی ہوگی لیکن بھکتی میں موکش یا نجات کا مطلب جیو آتماکا پرماآتما میں مل جاناہے اورجب تک ایسا نہیں ہوتا روح اپنے اعمال کے مطابق بار بار جنم لیتی رہتی ہے۔
اس سلسلے میں شمیم طارق صاحب کا یہ اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
"عشق ہی دونوں کا مطلوب اور ایک ایسا درد ہے جو ہر درد کا درماں بن جاتا ہے۔ اس کے حاصل ہوتے ہی نفس کی ساری کدورتیں مثلاخودبینی، تن پروری،کینہ، حسد ، بغض وعداوت، دغا و مکر، نخوت وناموس ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے باوجود تصوف اور بھکتی کو ایک سمجھنا بہت بڑا مغالطہ ہے۔ دونوں کا مذہبی پس منظر اوراس پس منظر میں خداکا تصور الگ الگ ہے۔ بھکتی کی معراج آتما اور پر ماتما کا ملاپ ہے جبکہ و ہ تصوف جس کو سلوک راہ نبوت کہا گیا ہے خدا اور بندہ خدا میں دوئی یا عبودیت کی انسانیت کاحاصل قرار دیتا ہے۔بھکتی میں خدا تک پہنچنے کی اتنی ہی راہیں تسلیم کی گئی ہیں جتنی انسان کے جسم میں سانسیں ہیں، جبکہ صوفیا اتباع سنت و شریعت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک استدراج یا طلب مدارج اور حصول مدارج بھی لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ جو بھی مدارج کی طلب کرے اس کو اس کا حصول ہو جائے۔ تصوف اسلامی عقیدے کے متوازی کوئی اور عقیدہ اختیار کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل میں اخلاص کے ساتھ ایک طر ف اللہ سے اوردوسری طرف اس کے بندوں سے مخلصانہ رشتہ قائم کرنے کا نام ہے۔بھکتی میں قلبی واردات کے لیے کوئی قد غن نہیں ہے جبکہ صوفیا کسی ایسے کشفی علم کے قائل نہیں ہیں جس سے وحی کی اہمیت و حیثیت کی نفی ہوتی ہے۔ "َ ۔
کتابیات
تصوف اور بھکتی۔شمیم طارق۔انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،ممبئی۔1999
اردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار۔ڈاکٹر رضا حیدر۔غالب انسٹی ٹیوٹ۔ نئی دہلی۔2004
تصوف کے مسائل اور مباحث ۔ ڈاکٹرمرزا صفدر علی بیگ ۔الیاس ٹریڈرس۔شاہ علی بنڈ روڈ۔حیدرآباد۔1983
تصوف اور اہل تصوف۔مولانا سید احمد عروج قادری۔مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز۔نئی دہلی۔2001
مسائل تصوف۔میکش اکبر آبادی۔انجمن ترقی اردو (ہند)نئی دہلی۔2000