تازہ بہ تازہ، سلسلہ 8
فضیل احمد ناصری
مری اولین خواہش، کوئی چوٹ کھا نہ پائے
تجھےفکر ہے یہ ہردم،کوئی مسکرا نہ پائے
مجھے سب خبر ہے،کیوں ہےیہ اسارتِ مسلسل
تری محفلِ ستم سے کوئی فرد جا نہ پائے
گئی جب سےاس چمن کی ترے ہاتھ پاسبانی
وہ حوادثات آئے، جنہیں ہم بھلا نہ پائے
ترےدور میں یہ کیسی،رہ و رسم چل پڑی ہے
کہ زباں ہے بند ایسی، کوئی لب ہلا نہ پائے
تو جفا کا ہم زباں ہے کہ ہمارا حکمراں ہے
دیے درد تم نے ایسے، کہیں ہم دوا نہ پائے
مرا دل ہجومِ غم کا، کوئی قبلہ گاہ ٹھہرا
وہ ہجومِ رنجِ پیہم، جو کہیں سما نہ پائے
نہ سَلَف سا جوش و جذبہ، نہ سَلَف سی سمع و طاعت
جو عمامہ گر پڑا تھا، اسے پھر اٹھا نہ پائے
مرےہمنوا ابھی تک کسی خواب میں پڑے ہیں
کئی ظالمین آئے ، پہ انہیں جگا نہ پائے
اگر اب بھی لوٹ آئے وہ زمانۂ عزیمت
کوئی بولہب جہاں میں کہیں حوصلہ نہ پائے