تازہ بہ تازہ، سلسلہ 5
فضیل احمد ناصری
وہ دھاڑ کہاں ہے، وہ تگ و تاز کہاں ہے
مومن! وہ ترا شیر سا انداز کہاں ہے
شایاں نہیں تیرے لیے، یہ گوشہ نشینی
شاہیں! وہ تری شوکتِ پرواز کہاں ہے
کل تک تری سانسوں سے نکلتےتھےشرارے
صد آہ! ترا سوز، ترا ساز کہاں ہے
بے تاب ہیں آنکھیں ترے دیدار کو سب کی
اے دوست! ترا جلوۂ طنّاز کہاں ہے
جس عزم سے ہل جاتے تھےکفار کے سینے
وہ عزمِ زرہ پوش و جنوں ساز کہاں ہے
وہ بزم، جہاں عام تھی صہبائے شجاعت
اے جاں! وہ تری جلوہ گہِ ناز کہاں ہے
جلوےتھےتمہارےہی کبھی بدرواحد میں
بتلاؤ، فرشتوں کی وہ آواز کہاں ہے
بسمل سی تڑپتی ہیں مرےدل میں امنگیں
دنیا میں کوئی ہم دم و ہم راز کہاں ہے
گو کل کی طرح آج بھی وسعت ہےفضامیں
عالَم میں مگر قدس کا شہباز کہاں ہے
ترا شیر سا انداز کہاں ہے
previous post