تبصرہ نگار :خان محمد رضوان
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی
” مناظر عاشق ہرگانوی کی” آنکھوں دیکھی ” تجزیہ” مرتب: جفاکش ادیب و سمت نو کا البیلا شاعر احمد معراج ہیں-
تخلیقیت کے آسمان پر نئے روزن کے روشنی کی پذیرائی اطمینان بخش ہے اور ہونی بھی چاہیے جو نسل تازہ کے لیے خوش آئند بات ہے، سچ تو یہ ہے کہ تازہ کہکشاں کی تازگی، ضیا باری اور ان کے لفظوں کی پاکیزگی نے دلوں کو مسخر کیا ہے اور دماغ کے ساتوں درنہ ہی واکیے ہیں بلکہ منوربھی کیے ہیں، ان تازہ کار، خوش رنگ،خوش فر، عہد رفتہ کی رعنائیوں اورزبان و بیان کی تمام تر دل کشی رکھنے والا نئی نسل کا ایک اہم اور معتبر نام احمد معراج کا ہے –
احمد معراج نوجوان معروف اور منفرد لب ولہجہ کے مترنم شاعر ہیں، جنہوں نے بنگال کی آندھی اور کالے جادو کی طرح ملک بھر میں بہت کم عرصے میں اپنی آواز کی سحر انگیزی سے نہ صرف دھوم مچایا ہے بلکہ اب وہ دور سے ہی پہچانے جانے لگے ہیں، ان کا انفرادی شان ان کی خوبصورت شخصیت اور ان کا ترنم ہے- بطور نمونہ چند شعار دیکھیے :
یقین کیسے کروں جاے گا وہ منزل تک
جو راستہ ترے گھر طرف نہیں جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی سوچ کے میں کرتا نہیں تیرا گلہ
تیری رسوائی میں شامل مری رسوائی ہے
…………………………
جب بھی روتا ہوں اکیلے میں سکوں پاتا ہوں
میرا غم بانٹنے والی مری تنہائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے سارے رنج و غم کو غرق صہبا کردیا
اور خود کو بے نیازِ فکر دنیا کر دیا
ہم تو اپنے حال میں جیسے بھی تھے بہتر ہی تھے
آ پ نے دیے کر سہارا بے سہارا کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
کتاب "آنکھوں دیکھی” کے تعلق سے کچھ لکھنے سے پیشتر اس دلدوز واقعہ کا زکر کردوں کہ 1989تاریخ ہند کا وہ سیاہ سال تھا جس کی سیاہی سے آج بھی انسانیت لرزاں ہے، ایسا دردناک فسادجس کی داستان غم انسانیت کو تا قیامت اشک بار کرتی رہے گی-
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نےبھاگلپور کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور مظلوموں کی داد رسی کی، دورے کے بعد وہ اتنا ٹوٹے کہ اپنے کرب کو نظم کی زبان میں پیش کیا، جب ان کا مجموعہ "آنکھوں دیکھی” منظر عام پر آیا تو اہل دانش وبینش ہوش باختہ ہوگئے اور صاحب اقتدار سیاست داں طبقہ کے پیر کے نیچے سے زمیں کھسک گئی، مگر کیا کیجے گا کہ یہ سارے تماشے انہیں سیاست دانوں کی کرشمہ سازی کا پیش خیمہ ہیں-
"آنکھوں دیکھی” میں 64نظمیں ہیں،احمد معراج نے بہت اچھا کیا کہ ان نظموں کو مرتب کرکے اپنے تحقیقی اور تنقیدی شعور کی پختگی کا احساس دلایا ہے،اس کتاب کو انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلا حصہ میں موقر ادبا وشعرا کے تقریباً بیالیس اہم مضامین ہیں، ان میں یہ مضامین – "مناظر عاشق ہرگانوی اور شاعری کی نئی جہت” ( پروفیسر محمد حسن)، "مناظر عاشق ہرگانوی کی نظموں میں فسادات کی تاریخ” (ڈاکٹر انور سدید)، ” مناظر عاشق ہرگانوی کی مزاحمتی شاعری کی تخلیقیت شناسی” (نظام صدیقی)، "مناظر عاشق ہرگانوی اور داستان غم کا سلسلہ” (پروفیسر عبد القوم دسنوی)،” مناظر عاشق ہرگانوی کا مجاہدانہ کارنامہ” (ناوک حمزہ پوری)، قابل زکر ہیں-
اس کے علاوہ مرتب کا پیش قیمتی مبسوط پیش لفظ ہے،اور پروفیسر عبدالمنان طرزی کی قطع تاریخ شامل ہے- اس کا دوسرا حصہ "نقد پارے "کے عنوان سے ہے، اس میں تقریبا 70 مشاہیر ادیب وشاعر کے تاثرات اور تبصرے ہیں،
اس کے علاوہ احمد معراج نظمیں، غزلیں اور مضامین ملک کے اہم رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں-
” گلستانِ وارث ” احمد معراج کی دوسری کتاب ہے، جو 2018 منظر عام پر آکر مقبول ہوچکی ہے،یہ کتاب خالص تحقیقی نوعیت کی ہے،
اس کتاب کے ذریعے مغربی بنگال کے استاد شاعر صوفی شاہ رحمت اللہ قادری منعمی ابوالعلائی وارثی کی دریافت ہوئی ہے جو ایک کامل صوفی بزرگ تھے، جن کا تعلق کلکتہ سے تقریباً 23 کیلومیٹر دورپر واقع ‘ٹیٹا’ گڑھ سے تھا۔ آ پ کا شمار ٹیٹا گڑھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت سید شاہ وارث علی قادری منعمی ابوالعلائی کے اہم خلفاء میں ہوتا ہے۔ اس طور پر یہ کتاب بےحد مفید اور اہم ہے-
احمد معراج فعال اور متحرک اسکالر ہیں، وہ نہ صرف ایک اچھے اور ہم عصروں میں نمایاں مقام رکھنے والے ہیں بلکہ ان کی تحقیقی اور تنقیدی فکر بھی بالغ ہے، ان کے تحقیقی اور تنقیدی سرماے سے ہمارا ادب ضرور ثروت مند ہوگا، توقع ہے اہل نظر ان کی کاوشوں کو سراہیں گے-