Home نظم چھن گئیں آزادیاں میری

چھن گئیں آزادیاں میری

by قندیل

تازہ ترین سلسلہ(59)

 فضیل احمد ناصری
فرنگی دور آیا، چھن گئیں آزادیاں میری
چمن آزاد ہوتے ہی ہوئیں بربادیاں میری
عزیزو! آؤ میری شامتِ اعمال تو دیکھو
گریزاں مجھ سے میلوں ہوگئیں پرچھائیاں میری
نہ ڈھونڈو رونقِ ماضی مری غم دیدہ ہستی میں
برہمن لے گیا چہرے کی سب رعنائیاں میری
گلستاں میں زباں بندی کا وہ عالم کہ مت پوچھو
نوا پیرائیاں مانی گئیں گستاخیاں میری
وطن میں ہوں مگر دارورسن کا خوف ہے ہر دم
بھلا دیں یار لوگوں نے سبھی قربانیاں میری
یہاں انسانیت کی بات کرنا بھی حماقت ہے
رفیقِ زندگی مدت سے ہیں تنہائیاں میری
سناؤں کیا کہ دل زخموں کا مرکز بن گیا اپنا
زمانہ ہوگیا، رخصت ہوئیں خوش گپیاں میری
انہیں سے غیر نے ہر عقدۂ مشکل کو کھولا ہے
گراں معلوم ہوتی ہیں تمہیں بے باکیاں میری
سنائے آزرانِ ہند کو توحید کے نغمے
رہیں گی زندہ تر تاریخ میں بے خوفیاں میری

You may also like

Leave a Comment