Home نظم اسلاف سا تعلقِ باہم نہیں رہا

اسلاف سا تعلقِ باہم نہیں رہا

by قندیل

تازہ ترین سلسلہ(57)

 فضیل احمد ناصری
اسلاف سا تعلقِ باہم نہیں رہا
ہاتھوں میں اتحاد کا پرچم نہیں رہا
ہر شخص اپنی اپنی انا کا مرید ہے
عشقِ حضورِ سرورِ عالمؑ نہیں رہا
آزر کے پاؤں پڑ گئے سارے ہی بت شکن
اہلِ حرم کو دیں کا کوئی غم نہیں رہا
القدس ہاتھ سے گیا، ہم دیکھتے رہے
شاید جہاں میں مومنِ پُر دَم نہیں رہا
نعرہ زنوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں
روحِ عمل سے آشنا آدم نہیں رہا
قرآن اور حدیث سبھوں نے سنا مگر
رنگِ حیاتِ قائدِ اعظمؑ نہیں رہا
ضبطِ فغاں سے کام لیا ہم نے، ورنہ یاں
کس روز اپنی بزم میں ماتم نہیں رہا
اے ہم نشیں! کفن سے لپٹ، جنگ کو نکل
طاؤس اور رباب کا موسم نہیں رہا
اے ناصری! دکھائیں ہم داغِ جگر کسے
روشن نگاہ ایک بھی محرم نہیں رہا

You may also like

Leave a Comment