تازہ ترین سلسلہ(53)
فضیل احمد ناصری
تھکی نہ قوم، صدائیں مری تھکاتے ہوئے
ہوا ہے ایک زمانہ مجھے جگاتے ہوئے
وہی تغافل پیہم، وہی جہاں طلبی
خدا کے نام سے اپنا لہو بچاتے ہوئے
تمہیں نوائے اذاں بھی گراں گزرتی ہے
وہ جنگ گاہ بھی جاتےتھےسر اٹھاتےہوئے
ہماری مردہ ضمیری کا حال مت پوچھو
فریب کھاتےہیں اعدا کے مسکراتے ہوئے
عوام ہی نہیں، اب تو جناب واعـــظ بھی
دکھائی دینے لگے مے کدے کو جاتے ہوئے
ہجومِ جلوۂ جاناں عذاب ہے یارب!
بڑے بڑے بھی نظر آئے ڈگمگاتے ہوئے
گنہ کرے ہیں مسلمان بے حجابانہ
حیا انہیں نہیں آئے ہے گل کھلاتے ہوئے
نہ وہ مرید برہمن، نہ قائلِ زاھد
وہ جس مقام بھی پہونچےتوسرجھکاتے ہوئے
فرنگیانہ تمدن کو چھوڑ دو، ورنہ
گروگے چاہ ہلاکت میں لڑکھڑاتے ہوئے