تازہ ترین سلسلہ(52)
فضیل احمد ناصری
اپنے جہاں میں خوش تھے، تری دشمنی کے بعد
راہیں کھلیں غموں کی، تری دوستی کے بعد
اے شمعِ غرب! میں ترے احسان کیا کہوں
ظلمت بڑھی ہے اور، تری روشنی کے بعد
آزادیاں دلا کے چمن ان کو دے دیا
اب بچ ہی کیا گیا تری اس خود کشی کے بعد
ہم سر کٹا کے آج بھی غدارِ ملک ہیں
اور وہ وطن نواز ہیں، اتنی کمی کے بعد
اے دوست دار! پرسشِ احوال چھوڑ دے
تڑپا ہوں میں بہت سخنِ شبنمی کے بعد
حیراں ہوں دیکھ دیکھ کے کم فہمیاں تری
تم شیر ہو گئے ہو، مری خامشی کے بعد
گھبرائیو نہ مومنو! حالاتِ دہر سے
آسانیاں ہیں، وقت کی ہر کج روی کے بعد
اے مومنو! خدا کے لیے خواب سے اٹھو
اک زندگی ہے اور بھی، اس زندگی کے بعد
ارشدکی رہبری میں مسلماں ہیں خوش،مگر
کیا ہوگا اپنی قوم کا اس عبقری کے بعد