تازہ ترین سلسلہ(51)
فضیل احمد ناصری
جب سے تمہارے ہاتھ لگی ہے، کنجی اس کاشانے کی
پڑ گئی عادت ہم کو بھی، اس دن سے رونے گانے کی
کون یہاں پر کھنچ کھنچ کر اب بادہ کشی کو آے گا
اک دن میں تصویر مٹادی، تم نے تو مے خانے کی
آج کے مومن چادرِ حکمت، اوڑھ کے مقتل جاتے ہیں
وہ گئے، جن میں بولہبوں سے طاقت تھی ٹکرانے کی
دین سے رشتہ توڑ تو لیں گے، ترکِ کلیسا ناممکن
ہم مسلم ہیں، اپنی عادت پیہم دھوکے کھانے کی
اپنی گرہ میں باندھ لو اس کو، شوقِ شہادت ابھرے گا
ذرۂ بے مقدار نہ سمجھو، خاک ہے یہ پروانے کی
خوب پتہ ہے اس قضیے کا اے یارو انجام ہمیں
جنسِ شرافت اپنا شیوہ، ان کی خو دھمکانے کی
اب تو کسی اصلاح کی ان سے، اتنی بھی امید نہیں
تھک گئے ہم تو سوچ کے ساری، تدبیریں سمجھانے کی
خواب سے اٹھو، ہوش میں آؤ، رگڑے جھگڑے ترک کرو
کفر نے تیاری کر لی ہے امت کو دفنانے کی
جاؤ وہاں کچھ وقت لگاؤ، شاید کچھ تحریک ملے
حوصلہ پرور، درس دہندہ، تربت ہے دیوانے کی