تازہ ترین سلسلہ(48)
فضیل احمد ناصری
ہمیں دنیا سمجھتی ہے پیمبر کے قریبوں میں
جو سچ کہیے تو ہر مومن ہے صہیونی نقیبوں میں
گیا سرمایۂ سوزِ دروں، آہِ سحر گاہی
فقط زورِ بیاں ہی رہ گیا اپنے خطیبوں میں
وہ مومن آج احمق بن کے رسواے دوعالم ہے
بنایا تھا جسے ہستی کے خالق نے لبیبوں میں
نمک ہی بن گئے سارے، نمک کی کان میں جا کر
ہوس کی آگ کچھ ایسی لگی اردو ادیبوں میں
اگر اک ذرّۂ ایماں بھی پا لو تو غنیمت ہے
نہ ڈھونڈو غیرتِ اسلام ہم سے بدنصیبوں میں
حرم والے بھی گویا رہ گئے ابنِ سبا بن کر
زبانیں ہیں حبیبوں سی، عمل شامل رقیبوں میں
مری آہوں سے پتھر رو پڑے، انساں نہیں پگھلا
جہاں دولت خدا ہو، کون جاتا ہے غریبوں میں
انہیں کے نسخۂ قاتل پہ مسلم مرتے جاتے ہیں
الہی! یہ کشش کیسی ہے طاغوتی طبیبوں میں
گرجتا ہے اکیلے ہی ہمارا ارشدِ مدنی
یہی بلبل سلامت ہے چمن کے عندلیبوں میں