Home نظم جو بات سنتِ آقاے نامدار میں ہے

جو بات سنتِ آقاے نامدار میں ہے

by قندیل

تازہ ترین سلسلہ(42)

 فضیل احمد ناصری
نہ بت کدے،نہ کلیسا،نہ گردوارمیں ہے
جو بات سنتِ آقاے نامدار میں ہے
اٹھو اٹھو کہ ترے جاگنے کا وقت آیا
زمانہ تیری امامت کے انتظار میں ہے
یہ مانتا ہوں کہ منزل پہ اختیار نہیں
قدم اٹھاؤ کہ یہ تیرے اختیار میں ہے
ہماری قوم کے بندے بگڑ گئے ہیں مگر
فقیہِ شہر مریدین کے حصار میں ہے
حرم کے واسطے مغرب بنا زبورِ عجم
ہر ایک مرغِ حرم مغربی شعار میں ہے
ستم تو دیکھیے طاغوت ہم زبان ہوا
مگر یہ امتِ مرحوم خلفشار میں ہے
نہ ہوشِ فتنۂ امروز، نے غمِ فردا
خزاں میں کھوےہیں جیسےکوئی بہارمیں ہے
عمل سے دور، رسومات کے مگر عاشق
جسےبھی دیکھیے،پچھلوں کی یادگارمیں ہے
ہمارا اپنے وطن میں یہ حال ہے عنبر!
ہمارا نام غریب الوطن شمار میں ہے

You may also like

Leave a Comment