Home نظم دل ہی شاد کہاں

دل ہی شاد کہاں

by قندیل

تازہ ترین سلسلہ(39)

 فضیل احمد ناصری
درد و الم کی بھیڑ میں یارو! خوش کن باتیں یاد کہاں
ہنسنے کا دل خوب کرے ہے، لیکن دل ہی شاد کہاں
ہر مسند پر ان کا جلوہ، ہر محفل میں ان کی دھوم
ایسی ناہموار فضا میں لے جائیں فریاد کہاں
بزمِ جہاں میں خون کے پیاسے اور بھی قاتل آے ہیں
تم جیسا محبوب مگر عالم میں ستم ایجاد کہاں
دین گیا، دنیا بھی گئی، سب کچھ ہاتھوں سے چھوٹ گیا
گھر بھی نہیں، صحرا بھی نہیں ہے، ہم جیسا برباد کہاں
اس کے ہاتھ سے شیریں نکلی، اپنے ہاتھ سے ملک گیا
ضبطِ فغاں میں ہم سے بڑھ کر کوہ شکن فرہاد کہاں
میری عیادت کرنے والو! پاس سے میرے اٹھ جاؤ
تم نازک ہو، سن پاؤگے درد بھری روداد کہاں
عزمِ جواں کے کوہِ گراں وہ، ہم آوارہ پتّے ہیں
نام کی نسبت رہ گئی ورنہ، اوصافِ اجداد کہاں
پھنس گئی دنیا، یاجوج و ماجوج کے خونیں پنجے میں
عالَم میں آباد سبھی ہیں، انساں ہی آباد کہاں
جاؤ کسی کمزور کو مارو، آگ لگاؤ شہروں میں
اس دربار کی فطرت میں ہے شعر و سخن کی داد کہاں
درد بھرے اشعار تو عنبر اور بھی شاعر کہتے ہیں
میر کی باتیں سب سے جدا ہیں، ان جیسا استاد کہاں

You may also like

Leave a Comment