تازہ ترین سلسلہ(37)
فضیل احمد ناصری
گھر ہمارا ظاہراً واقع ہےانسانوں کے بیچ
درحقیقت گھر چکے ہم لوگ حیوانوں کے بیچ
میں اکیلا ہی جلا تنویرِ عالم کے لیے
جیسے شمعِ انجمن سوزاں ہو پروانوں کے بیچ
آہ! یہ کیسی ہوا ہندوستاں میں چل پڑی
قربِ سلطانی کے جھگڑے ہیں سخن دانوں کے بیچ
آتی جاتی مشکلوں سے کیا ڈراتے ہو ہمیں
ہم ہمیشہ سرخ رو ٹھہرے ہیں طوفانوں کے بیچ
کون پیغمبر، کہاں کا دین، کیسی طاعتیں
باغیانِ حق کے چرچے ہیں مسلمانوں کے بیچ
بندۂ بے دام یہ، فلمی اداکاروں کے ہیں
جائیو مت واعظو! ان جیسے دیوانوں کے بیچ
عہدِ حاضر میں مسلماں کافروں کے درمیاں
جیسے دسترخواں چنا ہو تازہ مہمانوں کے بیچ
مسجدوں میں، خانقاہوں میں نہ کر ان کو تلاش
اہلِ ایماں کی رہائش ہے صنم خانوں کے بیچ
بات حق تھی، اس لیے یک لخت ٹھکرائی گئی
اب کہاں گنجائشیں ہیں، سچ کی افسانوں کے بیچ
آج بھی مومن کی گر ضربِ کلیمی جاگ جاے
چشمۂ حیواں نکل سکتا ہے چٹانوں کے بیچ