Home نظم ہم کو رہنے دو دیہاتوں میں

ہم کو رہنے دو دیہاتوں میں

by قندیل
تازہ ترین سلسلہ(32)
 فضیل احمد ناصری
تارے گننا، آہیں بھرنا، رونا دھونا راتوں میں
رت دنیا کی کوئی بھی ہو، ہم تو ہیں برساتوں میں
ساقی آکر طیش میں مجھ سے بادہ و ساغر چھین گیا
میخانہ کیا خاک چلے گا، جب ہو ایسے ہاتوں میں
دارورسن کا شور ہے ہرسو، موسم ہے زنجیروں کا
کیسی نیند، کہاں کی مستی، جب دشمن ہو گھاتوں میں
اب تو فصلِ بہاراں کی امید بھی مت کر اے بلبل!
گلیوں گلیوں شور بپا ہے، گل چیں ہے بد ذاتوں میں
ہم بھی ہیں اس باغ کے مالک، بھول نہ جاؤ ہم وطنو!
جو دینا، حق جان کے دینا، گننا مت خیراتوں میں
جب سے تختِ سلیمانی پر خون کے پیاسے بیٹھے ہیں
نفرت، دہشت، بدامنی ہی ملتی ہے سوغاتوں میں
تم تہذیبِ فرنگی والے، ہم آبا کے شیدائی
تم کو شہر مبارک، ہم کو رہنے دو دیہاتوں میں
جب سے ہم بے دین ہوے ہیں، کفر کی شورش جاری ہے
اتنا زور کہاں سے آتا، لاتوں اور مناتوں میں

You may also like

Leave a Comment