تازہ ترین سلسلہ(11)
فضیل احمد ناصری
استاذحدیث وفقہ جامعہ امام محمدانورشاہ دیوبند
جو مسلماں تھے کسی وقت زمانے والے
رہ گئے اب وہی ماضی کے فسانے والے
قہرِ فرعون ہے، نمرود کی آتش ہے مگر
آخرت چھوڑ کے بیٹھے ہیں دوگانے والے
قومی یک جہتی کے نعروں میں ہیں الجھے ہم لوگ
اور حیوان بنے ہم کو ستانے والے
ہم تو مسلک کے لیے مارنے مرنے پہ رہے
جال بنتے گئے ملت کو مٹانے والے
خوابِ خرگوش نے وہ حشر کیا ہے اپنا
حکمراں ہم پہ ہیں اب، چاے بنانے والے
قومِ مسلم کو خبر ہی نہیں، مذہب کیا ہے؟
ان کے رہبر ہیں سبھی ناچنے گانے والے
قہر تو یہ ہے چڑھے دار و رسن پر پھر بھی
عشقِ مغرب میں ہیں کعبے کے گھرانے والے
اوڑھ لی قائدِ امت نے قباے حکمت
راستہ بھول گئے، راہ دکھانے والے
اب تو اسلام کی تشریح بھی ہاتھوں سے گئی
بت کے بندے ہیں شریعت کے بنانے والے
وہ ہمیں قتل کریں، امن کے پیغمبر ہیں
ہم اگر روئیں تو ہم آگ لگانے والے
شیر مردوں سے ہوا ملک یہ خالی اپنا
خانقاہوں میں گھسے، آنکھ دکھانے والے
کیوں نہ بے درد بلاؤں کی ہو بارش ان پر
کلمہ گو بن گئے، ہولی کے منانے والے