تازہ ترین، سلسلہ 55
فضیل احمد ناصری
استاذحدیث وفقہ جامعہ امام محمدانورشاہ دیوبند
جس نے دریائے مصیبت میں اتارا ہم کو
وہی ظالم ہے بہت جان سے پیارا ہم کو
شام ہو یا کہ سحر، موسمِ گل ہو کہ خزاں
کفر دکھلائے ہے پُر ہَول نظــــــارا ہم کو
اس نے تو اور مظالم کے ہمالے توڑے
لاڈ سے جس نے کہا آنکھ کا تارا ہم کو
عہدِ حاضر کی سیاست بھی ہے دہشت گردی
اسی مجرم نے کیا درد کا مارا ہم کو
بات کیجے تو علی الفور زباں کٹتی ہے
اپنی محفل میں بلاؤ نہ دوبارا ہم کو
ہم تو دوڑے ہی چلے آئے تری چوکھٹ پر
تم نے جس نام و نشاں سے بھی پکارا ہم کو
جتنےعہدےتھے،گئےان کے تصرف میں،مگر
نہ ملا بزمِ مســــــــرت کا کنارا ہم کو
ہم نہ سمجھیں تو ہماری ہی خطا ہے اس میں
وقت کرتا ہے بہت صاف اشارا ہم کو
ان چراغوں کو حقارت سے نہ دیکھو لوگو
ان ہی شمعوں کی لووں سے ہے سہارا ہم کو