تازہ ترین، سلسلہ92
فضیل احمد ناصری
پھرنے نہ دے ذرا بھی کوئی در بدر مجھے
لے جائے کوئی آ کے ابھی میرے گھر مجھے
میں کارواں سے کٹ کے نئی راہ چل پڑا
ناپختہ لگ رہا تھا مرا راہ بر مجھے
میرا وجود کیا ہے، بتادے کوئی انہیں
پہچانتے نہیں ہیں ابھی بحروبر مجھے
مومن ہوں میں، خدا نے دیا ہے خِرَد کا نور
دھوکے نہ دے یہاں کوئی فردِ بشر مجھے
آسان تر ہے دوست اور دشمن میں امتیاز
بخشا ہے دستِ غیب نے ذوقِ نظر مجھے
ممکن نہیں کہ مجھ سے عدو پر ہو اعتماد
مل جائے گرچہ دوستو! عمرِ خِضَر مجھے
پتھر لیے کھڑا تھا وہی میری تاک میں
لگتا تھا قول و فعل سے جو معتبر مجھے
تاریخِ ہند ہوں، مرا مٹنا محــــــال ہے
ہرگز نہ جانیو! سخنِ مختصر مجھے
یارب! تری بہشت کو اڑ کر پہونچ سکوں
توفیقِ کارِ خیر کا، دے بال و پر مجھے
تاریخِ ہند ہوں، مرا مٹنا محال ہے
previous post