تحریر: توصیف القاسمی، پیراگپوری، سہارن پور
9؍جنوری سنہ 2018ء بروز منگل سہارن پور کے ایک مدرسے کے ایک استاد کا فون آیا اور انہوں نے مدارسِ اسلامیہ کے بے لگام مہتمم و ذمہ داران کی بدتمیزیاں گنائیں اور کہا :توصیف صاحب مدرسین کی بے بسی اور مدارس کے مہتمم حضرات وصدور و ممبران کی بے حسی کو بھی موضوع بحث بنائو۔ راقم چونکہ اِن مدارس کے احوال واقعی کا چشم دید گواہ ہے طالبِ علمانہ حیثیت سے بھی اور معلمانہ حیثیت سے بھی۔ اس لیے راقم کے ذہن ودماغ اِس موضوع پر قلم اُٹھانے کے لیے فوراً آمادہ ہوگئے۔ مدارسِ اسلامیہ کے اساتذہ 24گھنٹے محنت کرتے ہیں، ان کو ملتا کیا ہے؟ ’’کھوداپہاڑ نکلی چوہیا ‘‘ ۔
مدارس میں پڑھانے والے یہ بےبس اساتذہ اپنی تنخواہوں کا انتظام کرنے کے لیے چندہ بھی کرتے ہیں، جو کہ تدریس سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اور پھر مکمل چندہ لاکر مہتمم واہل کمیٹی کے ’’آہنی ہاتھوں ‘‘ میں دے دیتے ہیں، جس پر یہ حضرات سانپ کی طرح کنڈلی مارکر بیٹھ جاتے ہیں اور دولت کو پیدا کرنے والے یہ اساتذہ سات آٹھ ہزار روپے مہینے پر گزارہ کرتے ہیں۔ جس کھانے پر اساتذہ و طلباء کا انحصار ہوتاہے، وہ اس قدر قابلِ رحم ہوتاہے کہ وہ مہتمم جس کو چٹورپن کی عادت لگی ہوئی ہے، وہ بھی اِس کھانے کو کبھی نہیں کھاتا اور اپنا کھانا الگ سے اپنے گھر بنواتا ہے۔ اساتذہ اگر تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کربیٹھیں تو قرونِ اوّل کے زاہدین کی مثالیں دے کر خاموش کردیتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مفتی محمد سعید صاحب پالن پوری بھی اپنی تقریروں میں اساتذہ کی کم تنخواہوں کا مسئلہ اُٹھاچکے ہیں اور مہتمم حضرات کی پُرتعیش زندگیوں پر کڑی تنقید کرچکے ہیں لیکن مہتمم حضرات کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
مدارس کے ذمہ داران تین قسم کے ہیں: نمبرایک وہ مہتمم حضرات جو کسی ہیتِ حاکمہ کے پابند ہوتے ہیں، یہ مہتمم حضرات اپنی چالاکی اور عیّاری سے شوریٰ اور کمیٹی کو عضومعطل کردیتے ہیں اور شوریٰ کو برائے نام رہنے دیتے ہیں تاکہ مدرسے کی معاشی اور تعمیری ضرورتیں پوری ہوتی رہیں باقی اساتذہ و طلبا کے زخم سے اِن حضرات کو کوئی سروکار نہیں۔ نمبر دو : وہ مہتمم حضرات جو کسی بھی ہیتِ حاکمہ کے پابند نہیں ہوتے وہ وحدہ لاشریک مالک ہوتے ہیں۔ نمبر تین: وہ مہتمم حضرات جو کسی کمیٹی کے زیرِاثر ہیں، مہتمم کی یہ آخری قسم تین میں نہ تیرہ میں۔ مہتمم کی یہی قسم بہت قابل رحم ہوتی ہے۔
قسمِ اوّل اور قسمِ دوم کے مہتمم حضرات ٓاپنے آپ کو معبودِ باطل کی طرح پجواتے ہیں۔ اساتذہ، طلبا ، مدرسہ اور مدرسے کی جائیداد جو اصلاً وقف ہوتے ہیں، مہتمم کی ذاتی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔وہی استاد قابلِ تعریف اور دیرپا ہوتا ہے جو حضرات مہتمم صاحب اور بے لگام کمیٹی کا ثناخواں اور نغمہ سرا ہوتا ہے۔ استاد کو کیوں ، کب اور کیسے ہٹانا ہے؟ اِس کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ نہیں بلکہ کمیٹی اورمہتمم صاحب کی زبان ہی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مہتمم حضرات سال میں سات آٹھ مرتبہ اپنے اساتذہ سے چندہ کراتے ہیں اور اساتذہ کی لائی ہوئی دولت پرجو کہ شرف و عزت گروی رکھ کر فقیروں کی طرح در در سے جمع کی گئی ہے، دادِعیش دیتے ہیں۔اساتذہ اور طلبا کے منھ کا نوالہ چھین کر اپنی کوٹھیوں اور بنگلوں میں پُرتکلف عشائیہ اور ظہرانہ دیتے ہیں۔ سائیکلوں پر اور پیدل چل کر اِکٹھی کی گئی دولت کے بل پر یہ سنگ دل مہتمم حضرات لگژری گاڑیاں خریدتے ہیں اور ایک طرف مسلم اہل ثروت کو بے وقوف بناتے ہیں تو دوسری طرف غریب اساتذہ و طلبا کے ساتھ بھدّا مذاق کرتے ہیں۔ اپنے اساتذہ و طلبا کو مہینوں مہینوں دال کھلانے والے یہ بے حس مہتمم کروڑوں روپیوں کی شادیاں کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو ملک و بیرون کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم دلواتے ہیں۔
قیام مدارس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایسے جفاکش حضرات تیارکیے جائیں جو زمانے کی ہر قسم کی سنگینیوں میں بھی اسلام کی خدمت انجام دے سکیں۔ مولانا قاسم نانوتویؒ کے تجویزکردہ اصولِ ہشت گانہ اِس مقصد کے واضح دلائل ہیں۔ اب اکثر مہتمم حضرات کی نشست وبرخاست دیکھیے، صبح و شام دیکھیے، طرزِزندگی پر نظر ڈالیے اور مولانا قاسم نانوتویؒ کے اصولِ ہشت گانہ پر چسپاں کیجیے، دونوں کے درمیان ایک فرق نہیں بلکہ خلیج حائل ہے۔جفاکشی تو دور ذرا مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو یہ نرم و نازک مہتمم حضرات آنکھ اور بھوں چڑھالیتےہیں اور سر میں درد ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی خدمت فاقہ کشی اور پیٹ پر پتھر باندھ کر نہیں بلکہ قصرِسلطانی کے گنبد سے کرناچاہتے ہیں، یہ کھلّم کھلّا مدارس کی روح کے ساتھ غدّاری اور دھوکہ ہے۔
مہتمم حضرات کی اِن ہی شیطانیت اور بدتمیزی کی وجہ سے لاچار و بے بس اساتذہ اپنے اپنے مدارس قدم قدم پر کھول رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے ذمہ داران کے اِس قدر ستائے ہوئے رہتے ہیں کہ دوبارہ کسی ڈکٹیٹر مہتمم کے تحت کام کرنے کو رجوعِ الی الکفر تصور کرنے لگتے ہیں۔ شمالی ہند میں آج ہم کو جو مدارس کی کثرت نظرآتی ہے، اِن بنیاد میں مہتمم حضرات کی یہی کارفرمائیاں ہیں۔ دہلی میں تو مدارس کی حالت بہت ہی خطرناک ہے۔ ہر گلی کے نُکّر پر ایک مدرسہ ہے، جن میں اہلِ بستی کے بچے نہیں، بلکہ دوسرے شہروں سے بچے لائے جاتے ہیں اور ان کو بچپن ہی سے چندہ مانگنے کے گُر سکھادیے جاتے ہیں۔یہ حرام کاری اِن اسلام کے قلعوں میں پل رہی ہے۔
مہتمم حضرات کو سُدھرجانا چاہیے اور اپنے معاملات کو درست کرلینا چاہیے، قوم سے جس نام سے دولت لے رہے ہیں، اُسی مصرف میں خرچ کریں ورنہ جس دن ’’پاپ کا گھڑا ‘‘ بھرگیا اور مظلوم و بے بس اساتذہ و طلبا کی بددعائوں نے عرشِ الٰہی کو ہلاڈالا تو خدائے قہار وجبار اپنی تمام تر خوفناکی کے ساتھ تمہارے سروں پر آدھمکے گا اور پھر ’’این المفر این المفر ‘‘ کی کی صدائیں گونجیں گی اور للّٰہِ الواحدالقہار کی عدالت میں مجرم قرار دیے جائوگے اور تمہارے اوپر عائد فردِجرم یہ ہوگی کہ ’’یہ وہ لوگ جو انبیاء کے وارث ہوکر فرعون و نمرود و ابوجہل اور امیہ بن خلف کے وفادارتھے۔‘‘ اور تمہاری تمام نمازیں اور بزرگی کا ڈھونگ اور تمہاری تسبیحیں اور تمہاری وہ لمبی لمبی دعائیں جو اسٹیج پر کیاکرتے تھے اور تنہائیوں میں خدا کو بھول جاتے تھے تمہارے گناہوں میں مزید اضافے کا سبب ہوںگی۔
اساتذہ کیا کریں؟
جس طرح ظلم کرنا حرام ہے، اُسی طرح ظلم سہنا بھی حرام ہے، اساتذہ کرام کو چاہیے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، احساس کمتری سے باہر نکلیں، بجائے اِس کے کہ تم مہتمم کے سامنے سرنِگوں ہوں، مہتمم کو مجبور کیجیے کہ وہ تمہاری ہر حق بات کو مان لے۔ یاد رکھیے تم مہتمم سے نہیں ہو بلکہ خود مہتمم کا وجود تم سے ہے۔ سیکولرازم کے اِس زمانے میں ملک کا وزیراعظم بھی عوام کے سامنے ہاتھ جوڑکر ووٹ مانگتا ہے اور اپنا ٹرم پورا کرکے بوریا بستر خود ہی اُٹھالیتا ہے۔مزید یہ کہ ملک کی سپریم کورٹ بھی اُس کا پائجامہ ڈھیلا کرتی رہتی ہے۔ آئین میں ایسی دفعات رکھی گئیں ہیںکہ وہ مطلق العنان نہیں ہوسکتا۔کھُلی فضا کے اِس زمانے میں ہمارے مدارس اسلامیہ ہی وہ واحد ادارے ہیں جہاں مہتمم اور اہل کمیٹی بے تاج بادشاہ بنے رہتے ہیں۔یہ اِن بے تاج بادشاہوں کا کمال نہیں ہے، بلکہ ہم علمائے کرام کی بزدلی ، کم ہمّتی، سُستی و کاہلی کا نتیجہ ہے کہ یہ بھوت ہم پر سوار ہیں، اُٹھیے، بیدار رہیے، علمی لیاقت پیدا کیجیے، اپنے اندر چاہ پیدا کیجیے راہ خود نکلے گی۔ مہتمم و ذمہ داران کی بے لگامی پر لگام لگے گی، اِن حضرات کی ناک میں نکیل ڈالنا ہی تمام اساتذہ و طلبا کی ترقی کی ضمانت ہے، منصوبہ بندی کیجیے ، حالات کا گہرائی کا تجزیہ کیجیے ، وقت کی قدر کیجیے، مدرسے کی چہار دیواری سے باہر کی دنیا پر اثرانداز ہوئیے۔ ابنِ تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ محدث ؒ دہلوی اور شیخ الہند کی طرح وقت کے دھارے کو بدلیے، چٹانوں سے ٹکرائیے، سمندر کے سینے کو چیریے، آندھی اور طوفان کے رُخ موڑیے، مہتمم اور کمیٹی کی شکل میں پیروں میں پڑی ہوئی زنجیر کو ایک جھٹکے ہی میں توڑڈالیے اور شاہین کی طرح دنیا کی ہر بلندی کو چھو جائیے اور اعلان کردیجیے کہ : وان لیس للانسان الاّ ماسعی ۔