مسلم ویمن پروٹیکشن بل کے نام پر مسلم خواتین کی اہانت اور دل آزاری نہ کرے حکومت
تین طلاق بل کے خلاف دیوبند میں معہد عائشہ صدیقیہ قاسم العلوم للبنات کی طالبات کا زبردست احتجاج
دیوبند،7؍ فروری(قندیل نیوز؍سمیر چودھری)
حکومت کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کے خلاف لائے جارہے ہیں بل کے مخالفت روز بروز بڑھتی جارہی ہے ،اس سلسلہ میں آج آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی اپیل پردیوبندکے تعلیم نسواں کے معروف ادارہ معہد عائشہ صدیقہ قاسم العلوم للبنات میں ایک احتجاجی مظاہرہ معلمات فرحین ثناء الحق اور گلفشاں تحسین راؤ کی قیادت میں کیا گیا جس میں شہر کی خواتین کے ساتھ ادارہ کی طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔اس دوران دیوبند کے ایک مقامی افسر کے ذریعہ ضلع مجسٹریٹ ،گورنر اور صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم دیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ طلاق ثلاثہ بل خواتین اور بچوں کے مفادات کے خلاف ہے اس لئے اس کو واپس لیا جائے ،میمورنڈم میں لکھا تھا کہ ہم صدر جمہوریہ ہند کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں خطبہ کے دوران مسلم خواتین کے سلسلے میں جو رکیک اور دل آزار جملے کئے گئے اسکی سختی سے مذمت کرتے ہیں بلکہ حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صدر جمہوریہ کے ان الفاظ اور ریمارکس کو حذف کرے۔میمورنڈم میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلم ویمن پروٹیکشن بل کے نام پر مسلم خواتین کی اہانت اور دل آزاری نہ کرے اور مسلم خواتین کو دستور ہند میں دےئے گئے حق آزادی اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش نہ کرے ۔اس موقع پر تمام خواتین نے متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا کہ صدر جمہوریہ کے خطاب سے مسلم خواتین سے متعلق سطور کو حذف کیا جائے اور حکومت کو مشورہ دیا جائے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے احساسات کو مجروح نہ کرے۔اس موقع پر خواتین اور طالبات نے اپنے ہاتھوں میں بینر اور تختیاں لے رکھی تھیں جس میں لکھا تھا کہ ’’حکومتیں بدل سکتی ہیں لیکن اسلامی قانون نہیں بدلا جاسکتا‘‘ہم شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کرسکتے،بی جے پی کا تین طلاق بل آئین کے جوہر پر حملہ ہے ۔ہم طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کرتے ہیں ،اسلامی شریعت ہمارا اعزاز ہے ۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معہد عائشہ صدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند کی معلمہ گلفشاں راؤ نے کہا کہ ملکی آئین ہر شخص کو اس کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے ،ہمارے ملک میں ہر شخص کو مذہبی ،لسانی اور ثقافتی آزادی حاصل ہے ایسے میں ملک کے پارلیمنٹ کے ذریعہ ایسا قانون پاس کیا جانا جو مسلم پرسنل لاء میں دخل اندازی کرتا ہوملکی آئین کی روح کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جینڈر جسٹس کے نام پر اسلامی شریعت میں مداخلت کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔گلفشاں راؤ نے مزید کہا کہ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو شریعت میں ہی محفوظ سمجھتے ہیں اور شریعت کو اپنے لئے تمغہ امتیاز سمجھتے ہیں ۔ادارہ کی معلمہ فرحین ثناء الحق نے بتایا کہ مسلم پرسنل لاء کی اپیل پر ہم بہنیں آج یہاں جمع ہوئیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جرائم پر کنٹرول کرنے کے بجائے حکومت مسلم خواتین کی ہمدردی کے نام پر شریعت میں مداخلت کررہی ہے۔ا نہوں نے کہا کہ پروٹیکشن آف رائٹس ان میریج ایکٹ 2017بڑی جلدی میں پاس کیا گیا ہے اور اس بل کی تیاری میں کسی عالم دین اور دانشوروں سے مشورہ نہیں لیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے 22-5-2017کے بعد ایسے کسی بل کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،یہ بل دراصل دستور ہند کی دفعات اور خواتین کے مفادات کے سخت خلاف ہے ۔اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اس بل کو فوری طور پر واپس لے۔اس موقع پر ادارہ کے سرپرست مولانا ندیم الواجدی، مولانا محمودصدیقی، زینت عبدالصمد ، شیبا جمیل، حامدہ پیار محمد، صدف ثناء الحق، نرگس یامین، صائمہ، نازش نورمحمد، تحسین طاہر، تسکین طاہر، ناہید شاہد، ام سلمیٰ سیف الدین، جویریہ شاہد وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین موجود رہیں۔