نئی دہلی:9؍مارچ(قندیل نیوز)
آبی وسائل ، دریائی ترقیات اور گنگا احیا کے وزیرنتن گڈکر ی نے کہا ہے کہ متبادل ٹیکنالوجی اس وقت ، وقت کا تقاضہ ہے تاکہ ملک میں بڑے پیمانے پر آبی بہم رسانی کا عمل ممکن ہوسکے۔ بڑے پیمانے پر آبی بہم رسانی کے لئے وسیع قطع والے پائپوں کے استعمال کے موضوع پر بین الاقوامی ورکشاپ کا افتتاح کرتے ہوئے آج نئی دہلی میں وزیر موصوف نے کہا کہ پاور گرڈ اور سڑک نیٹ ورک کے طرز پرملک میں آبی گرڈ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب گڈکری نے کہا کہ ملک میں پانی کی قلت نہیں ہے بلکہ ملک میں پانی سیمتعلق مناسب منصوبہ بندی اور آبی وسائل کیبندوبست کا نہ ہونا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 25 سے 30 فی صد زراعتی ورک فورس دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کررہا ہے اور اس کی وجہ آبپاشی کے مسائل اور اس کے نتیجے میں زراعت سے متعلق مشکلات کا ہونا ہے۔ بوند بوند سنچائی کے ذریعہ آبی وسائل کے موثر استعمال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیر موصوف نے مدھیہ پردیش کی مثال دی جس نے بوند بوند سنچائی کو فروغ دیکر چار فی صد کے قومی اوسط کے مقابلے میں 23 فی صد زراعتی ترقی حاصل کی ہے۔ اس موقع پر وزیر موصوف نے 8 لاکھ کروڑ روپے کی لاگت سے ملک میں دریاؤں کی رابطہ کاری کے مجوزہ 30 پروجیکٹوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ معیار سے سمجھوتہ کئے بغیر پانی کی موثر بہم رسانی کے لئے مناسب ،کم خرچ پر اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کوحاصل کرناہے۔آبی وسائل، دریائی ترقیات اور گنگا احیا کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ نے کہا کہ ہر کھیت کو پانی اور فی قطرہ زیادہ فصل ہماری حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہے اور 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے سے متعلق ہمارے وزیراعظم کا یہ خواب ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہروں کے ذریعہ آبپاشی اور آبی بہم رسانی پربہت زیادہ خرچ آتا ہے اور ماحولیات اور جنگلات کلیئرنسیس اور اراضی کے حصول کے مسائل کی وجہ سے اس میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی حکومتوں نے نہر کی جگہ پر آبی بہم رسانی کے لئے پائپوں کااستعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔ ڈاکٹر سنگھ نے ماہرین سے اپیل کی کہ وہ ہر کھیت کو پانی کے مقصد کے حصول کے لئے کم خرچ والے اور ماحولیات دوست متبادل تلاش کریں ۔آبی وسائل ، دریائی ترقیات اور گنگا احیا کی وزارت کے سکریٹری جناب یو پی سنگھ نے آبی بہم رسانی کے لئے وسیع قطع والے پائپوں کے فوائد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ملک بھر میں بہت ساری نہریں پچھلے کئی برسوں سے بنائی جارہی ہیں اور اب بھی یہ مکمل نہیں ہوئی ہیں۔ نہر نظام کے برخلاف ، پائپ کے ذریعہ پانی کی بہم رسانی کے لئے زمین کے حصول اور فوریسٹ کلیئرنس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے آلودہ ہونے کے مسائل میں بھی بہت حد تک کمی آئی ہے۔ سکریٹری نے کہا کہ ملک کو سستی ، کم خرچ والی اور ماحولیات دوست ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔جناب سنگھ نے امید ظاہر کی کہ ماہرین ورکشاپ میں اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں گے اور یقینی دہانی کرائی کہ وزارت اس پر فوراً کارروائی کرے گی۔خیال رہے کہ آبی وسائل ، دریائی ترقیات اور گنگا احیا کے زیر نگرانی ڈبلیو اے پی سی او ایس اور نیشنل واٹر ڈیولپمنٹ ایجنسی نے مشترکہ طور پر اس ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا ہے۔ اس ورکشاپ میں مینوفیکچرنگ کمپنیاں ، پانی کے بندوبست میں مصروف عمل تنظیمیں ، انجینئرنگ ماہرین ، مرکزی اور ریاستی حکومتو ں کے آبی وسائل کے محکمے اور نجی کمپنیاں جیسی اہم شراکت دار حصہ لے رہی ہیں اور امریکہ، برازیل، اٹلی، چین اور جنوبی افریقہ اور بیرونی ماہرین ورکشاپ میں پیپرز پیش کریں گے۔
بڑے پیمانے پر آبی سپلائی کے لیے متبادل ٹیکنالوجی وقت کا تقاضہ ہے:گڈکری
previous post