تازہ ترین، سلسلہ71
فضیل احمد ناصری
خدا سے دور، بتوں سے مگر قریب ہوں میں
جو سچ کہوں تو زمانے کا بدنصیب ہوں میں
مرا مشن تو نبوت کی ترجمانی تھی
مگر یہاں تو عزازیل کا نقیب ہوں میں
مری صراحئ فکری ہے ارتداد سے پر
سخن فروشی کی دنیا کا اک ادیب ہوں میں
میں اپنے دین کا دشمن ہوں برہمن کی طرح
یقین جانیے اپنا ہی اک رقیب ہوں میں
نہ دیکھ خلوت و جلوت کو غور سے میری
تضاد اپنا نشاں ہےکہ اک خطیب ہوں میں
اگرچہ مار کے ملت کو رکھ دیا میں نے
مجھے برا نہ کہو، قوم کا طبیب ہوں میں
وہ جس کی مستئ پیہم سے آشیانہ لٹا
حضور! ہاں وہی خاموش عندلیب ہوں میں
مرے ضمیر کے مالک ہیں تاجرانِ فرنگ
اگرچہ نام سے اسلام کا حبیب ہوں میں
گناہ گار ہوں، لیکن حریصِ رحمت بھی
عجائبات سے بھرپور اک عجیب ہوں میں