Home خاص کالم بات سے بات، محمد بن سلمان سے ایک ملاقات

بات سے بات، محمد بن سلمان سے ایک ملاقات

by قندیل

 
احمد حسین، جواہرلال نہرویونیورسٹی، دہلی
میں شاہ سلمان کا لخت جگر شہزادہ محمد بن سلمان ہوں، نام تو سنا ہی ہوگا، ہاں ہاں وہی ولی عہد، سعودی عرب کا دوسرا سب سے بڑا عہدہ دار، دیکھئے گفتگو شروع کرنے سے قبل میری آپ سے مودبانہ التماس ہے کہ کہیں بھی کوئی مہنگی ترین چیز جیسے مکان ، گھر، پینٹنگ ، اعتماد ، ایمان ، بھروسہ کچھ بھی ملے تو مجھے ضرور مطلع کریں،ہاں لیکن رازدارانہ اور خفیہ طریقہ سے، کسی کو کانوں کان خبر لگ گئی تو لوگ کیا کہیں گے، کہ عالم عرب نہیں بلکہ عالم اسلام کے اس انتشار اور کشمکش کے عالم میں سعودی شہزادہ پینٹنگس خریدتا پھر رہا ہے، یہ اچھی بات نہیں، مسلمانوں کی دلآزاری ہوگی، اتنی تو مجھے عقل ہے ہی۔
قیمتی اور نادر چیزوں کو اکٹھا کرنے کے شوق سے آپ کو اندازہ لگ گیا ہوگا کہ مجھے سیاست میں ذرابھی دلچسپی نہیں ہے، وہ توبڑے باپ کا بڑا بیٹا ہوں تو چار و ناچار کہیں کہیں بتکلف اسکا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے،ارے ہاں اسی سے یاد آیا آجکل القدس کا بہت چرچا ہو رہا ہے، کیا چل رہا ہے وہاں؟ کیا کوئی انٹرنیشنل مارکیٹ لگی ہوئی ہے؟؟ یا کوئی نیلامی ہو رہی ہے؟؟ ہندوستان، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا یہاں تک کہ بنگلہ دیش جیسے ممالک کے لوگ اس کے لئے پریشان ہیں،آخر بات کیا ہے؟؟؟ اسرائیل اس کے تعلق سے اتنا سنجیدہ کیوں ہے؟مجھے تو اپنی حالیہ خریدی ہوئی پینٹنگ کی طرح لگتا ہے یہ شہر ، مطلب اس میں کوئی خاص بات نہیں نظر آتی، وہ تو مہنگی تھی؛ اسی لیے پنٹنگ خرید لی تھی، مجھے پینٹنگ کےاسرار و رموز سے کیا واسطہ!
اچھا چھوڑیےاسکو ،بتائیے کیا وہ لوگ القدس کو فروخت کریں گے؟ ہاں، ہاں میں خرید سکتا ہوں ، میرے پاس بہت پیسے ہیں، کچھ کم ہوگا تو پاپا سے لے لیں گے، یار احمدبات کیجیے نا ، مجھے خریدنا ہےاور اسمیں تو کچھ چھپانے والی بات بھی نہیں ہے، لوگ تو خوش ہوں گے ، میری عقل کی داد دیں گ؛ لیکن اسرائیل نہیں مانے گا،ایک آئیڈیا ہے میرے پاس،میں پاپا سے بات کروں گا کہ وہ امریکہ سے بات کریں، پاپا کی ٹرمپ سے اچھی بنتی ہے،وہ تو ابھی کچھ دن پہلے ہمارے یہاں آئےتھے ، ٹرمپ نے مجھے بھی گلے لگایا تھا ، وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، انہیں اگر خبر ہو گئی کہ مجھے القدس خریدنا ہے،تووہ مجھے ضرور دلوادیں گے ۔
پتا ہے احمد، مجھے جہاز میں سوار ہونا بہت اچھا لگتا ہے، کبھی کبھی تو بلا وجہ ہی ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہتا ہوں، ابھی حال ہی میں ایک دعوت نامہ آیا تھا استنبول سے، کسی(OIC) کا پروگرام تھا شاید،مجھے استنبول بہت پسند ہے ،لیکن ابا خود بھی نہیں گئے اور نا ہی مجھے جانے دیا ،مجھے اچھا نہیں لگا تھا ، کم از کم استنبول گھوم تو آتے پروگرام کے بہانےاور ترکی تو ایسے بھی میرا فیوریٹ ملک ہے، یہ الگ بات ہے ترک مجھے اچھے نہیں لگتے، ابا کہہ رہے تھے ان کو بار بار رجب طیب اردوگان کا بلانا اچھا نہیں لگتا، کہیں لوگ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ ہمارے پاس سیاسی سمجھ بوجھ کی کمی ہے، اور مزید وہ عرب بھی تو نہیں ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کی بات سے سو فیصد اتفاق رکھتا ہوں کہ عثمانی مکہ اور مدینہ سے قیمتی اشیاچرا کر استنبول لے گئے ہیں، لیکن کہیں بولنا اچھا نہیں لگتا کہ لوگ کیا کہیں گےاور پھر اردگان صاحب کو سوچنا چاہیےاور بار بار بلانے اور اتنی فکرمندی کے اظہار سے احتراز کرنا چاہیے، آخرقیادت و سیادت تو ہمیں ہی جچتی ہے۔ہم عرب ہیں بھئی!
خیر احمد تم نے یہ قلم کہاں سی لیا ہے، بہت اچھا لگ رہا ہے، _____میرے ایک دوست نے ہدیہ کیا ہے___
ہاں مجھے بھی ٹرمپ کی بیٹی نے ایک قلم ہدیہ کیا تھا؛لیکن وہ اتنا اچھا نہیں ہے، یہ مجھ سے بیچو گے؟
_____ چل دفع ہو اور فٹ لے یہاں سے،ہوگا آپ کا باپ بادشاہ اور ہوں گے آپ ان کے دلارے شہزادے، ہر چیز بیچی اور خریدی نہیں جاتی،ابو نے اتنا نہیں بتایا ہے آپ کو___
(اور شہزادے کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں،یہ منظر قابل دید تھا )

You may also like

Leave a Comment