صرف جمعیۃ علماء سمیت ودیگر فریقین ہی اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ سکیں گے : مولانا سید ارشدمدنی
دہلی14؍ مارچ(قندیل نیوز)
باؔ بری مسجد رام مندر ملکیت معاملے کی سماعت آج ایک بار پھر سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے سامنے شروع ہوئی جس کے دوران سبرامنیم سوامی کو زبر دست جھٹکا لگا جب عدالت نے اسے اس معاملے میں کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے سے روک دیا اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر 31؍ مداخلت کاروں کو بھی فی الحال اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جیسے ہی عدالت کی کارروائی شروع ہوئی اس معاملے کی ایک اہم فریق جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ سب سے پہلے ان لوگوں پر عدالت میں داخل ہونے کی پابندی عائد کرے جنہیں ابھی تک اس معاملے میں بطور فریق تسلیم نہیں کیا گیا ہے ، جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کااشارہ ڈاکٹر سبرامینم سوامی اوردیگر مداخلت کاروں کی طرف تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل اعجاز مقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراء کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کو بتایا کہ اس سے قبل کی سماعت پرعدالت یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کاروں کی عرضداشتوں پر فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی اس کے باجود مداخلت کار عدالت میں گھس کر عدالتی کام کاج میں رخنہ اندازی کررہے ہیں جس کے بعد تین رکنی بینچ نے باقاعدہ آرڈر پاس کرتے ہوئے تمام مداخلت کاروں کی درخواستوں کو فی الحال ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا جس کے بعد ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے عدالت کوبتایاکہ اس معاملے کی سماعت اسی کی عرضداشت پر شروع ہوئی اور آج اسے ہی عدالت سے باہرکردیا جارہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی عرضداشت پر الگ سے سماعت ہوگی۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کی درخواست پر چیف جسٹس نے رجسٹرار کو بھی حکم دیا کہ وہ اب کسی بھی طرح کی عرضداشتوں کو قبول نہ کرے ۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے جو صبح سے عدالتی کارروائی پر برابرنظررکھے ہوئے تھے، آج کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے انہوں نے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل کے اس موقف کی تائید کی کہ مقدمہ کو سماعت کے لئے ایک وسیع تر بینچ کے حوالہ کیا جائے انہوں نے کہا کہ معاملہ کی اہمیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ایک وسیع تر بینچ اس مقدمہ کی سماعت کریے مولانا مدنی نے کہا کہ ہم باربار یہ بات کہتے آئے ہیں کہ ہم عدلیہ اور قانون کا احترام کرتے ہیں اور اس مقدمہ میں بھی عدالت کا جو فیصلہ ہوگا قابل قبول ہوگا لیکن چونکہ مقدمہ اب حتمی مرحلہ میں داخل ہے اور اس تعلق سے قانونی عمل کا آغاز ہوچکا ہے اس لئے میں تمام لوگوں سے یہ اپیل کروں گا کہ وہ اس معاملہ میں کسی طرح کی بیان بازی سے گریز کریں اور خاموشی کے ساتھ عدالت کے فیصلہ کا انتظارکریں انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہی نہیں مکمل یقین ہے کہ اس مقدمہ میں عدالت دوسرے معاملہ کی طرح انصاف کریگی ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کے ہر پہلوپر بحث کے لئے جمعیۃعلماء ہند نے ملک کے ناموروکلاء کی ایک پوری ٹیم کھڑی کردی ہے ۔
سماعت کے دوران ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا پر بھی نشانہ سادھا اور کہا کہ وہ بجائے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے اکثریتی فرقہ کے قریب دکھائی دے رہے ہیں جس کا عدالت کو نوٹس لینا چاہئے۔مداخلت کاروں کی عرضداشت پر کارروائی کرنے کے بعد عدالت نے معاملے کی سماعت پانچ یا سات رکنی بینچ پر کیئے جانے والی جمعیۃ علماء کی عرضداشت پر سنوائی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ۔عیاں رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر تین رکنی بینچ اس بات پر بضد تھی کہ وہی معاملے کی سماعت کریگی لیکن ڈاکٹر راجیو دھون کے دلائل کے بعد عدالت اس بات پر راضی ہوئی کہ وہ معاملے کی باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے پہلے اس مدعا پر فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔اسی درمیان ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی بحث کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ کی رو سے اس معاملے کی سماعت بھی کثیر رکنی یعنی کونسٹی ٹیوشنل بینچ پر کی جانی چاہئے کیونکہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے ، راجیو دھون کی بحث جاری ہے ۔ اب معاملے کی سماعت 23؍ مارچ کو2؍ بجے ہوگی۔عدالت آج حسب سابق وکلاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور بیشتر وکلاء کو کھڑے کھڑے ہی عدالتی کارروائی میں شریک دیکھا گیا ، آج عدالت میں جمعیۃ علماء کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے علاوہ وکلاء راجورام چندرن، اکرتی چوبے، قراۃ العین، شاہد ندیم ، جارج، تانیہ شری و دیگر موجود تھے۔
بابری مسجد مقدمہ سبرامینم سوامی سمیت دیگر 31؍ مداخلت کاروں کو جھٹکا
previous post