بابری مسجد:صرف ایک مسجد کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اصول کا مسئلہ بھی ہے: خالد سیف اللہ رحمانی
فرقہ پرستوں کے نشانہ پرتین ہزارمساجد،حیدرآبادمیں مسلم پرسنل لاء بورڈکے سہ روزہ اجلاس کی تیاری شروع
حیدرآباد،13؍دسمبر (قندیل نیوز)
حیدرآباد میں فروری میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تین روزہ اہم اجلاس کی تیاریوں کا آغاز کردیاگیاہے۔اس سلسلہ میں منگل کی شب بورڈ کے ذمہ داروں ، استقبالیہ کمیٹی کے ذمہ داران کے علاوہ علماء‘ مشائخ‘ معززین کی اور عمائدین ملت کا اہم اجلاس منعقد ہواجس میں تیاریوں کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ و صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی جو بورڈ کے رکن عاملہ بھی ہیں، نے اس اجلاس کو کامیاب بنانے کی اپیل کی۔ ملک کے موجودہ حالات اور مسلمانوں کو در پیش مسائل کے لحاظ سے اس سہ روزہ بورڈ کے اجلاس کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و جنرل سکریٹری استقبالیہ نے کہاکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا 28 واں اجلاس عام حیدرآباد میں فروری میں منعقد ہوگا۔ اس اجلاس کو کامیاب طریقہ سے منعقدکیاجانا چاہیے تاکہ بورڈ کے روبرو جو مسائل ہیں ان پر غور و خوض کیا جاسکے۔مولانا خالد نے کہا یہ ہمارے لئے خوش آئندبات کہ حیدرآباد میں کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم بہتر طریقہ سے بورڈ کے اجلاس کو منعقد کریں اور اسے کامیاب بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمانوں کے بہت مسائل ہیں۔ ان میں تعلیم سب سے اہم مسئلہ ہے۔ مسلمان تعلیمی اعتبار سے نہایت پسماندہ ہیں۔ اس ملک میں سیاسی اعتبار سے منصوبہ بندی کے ذریعہ مسلمانوں کو بے وزن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے معاشی حالات خراب ہیں۔ ملازمتوں میں حصہ داری کم ہے۔ ان سارے نقصانات میں سب سے بڑا نقصان دین اور شریعت کا ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کا ہے۔ جس وقت دستور ہند ترتیب دیا گیا‘ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن پر اصرار نہیں کیا گیا۔ انگریزوں کے دور سے اب تک مسلم پرسنل لا پر عمل ہوتا رہا ہے۔ 1937ء میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنایا گیا۔ 1938ء میں کچی میمن ایکٹ بنایا گیا۔ دستور میں ایسی دفعات رکھی گئیں جس میں تمام شہریوں کو مذہب پر عمل کی مکمل آزادی دی گئی جس میں دین کے شعبہ کو خاص اہمیت دی گئی۔مولانا رحمانی نے کہا کہ بابری مسجد کا مسئلہ صرف ایک مسجد کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اصول کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ ایک مرتبہ کسی جگہ اگر مسجد بن جاتی ہے تو وہ قیامت تک مسجد باقی رہتی ہے۔ جب قیامت قائم ہوگی تو خطہ زمین پر جتنی مساجد ہوں گے انہیں کعبۃ اللہ کے ساتھ سمیٹ کر جنت میں اٹھا لیا جائے گا۔ مسجدکی خرید و فروخت نہیں کی جا سکتی۔مولانا رحمانی نے کہااگر ایک مسجد حوالے کرنے کی بات کریں گے تو ہم اصول کی جنگ ہارجائیں گے کیونکہ فرقہ پرست تنظیموں نے3ہزارمساجد کو نشانہ بنانے کی فہرست تیار کرلی ہے۔ بابری مسجد کے علاوہ بنارس اور متھرا میں واقع مساجد کے لیے وہ اعلان بھی کرچکے ہیں۔ اگر ایک مسجد سے دستبرداری اختیار کرلی جائے تو دوسرے مساجد سے بھی دستبرداری کا حوالہ دیا جائے گا۔ دوسروں کی آستھا پر ہمارے مقدس مقامات کی قربانی نہیں دی جاسکتی۔ اگر ایک جگہ ان کی بات مان لی جائے تو شہر شہر اور گاؤں گاؤں وہ مساجد پر قبضہ کرلیں گے۔ اس لیے بابری مسجد کا مسئلہ ایک اصول کا مسئلہ بھی ہے جس سے تمام مساجد کا تقدس اور حفاظت ظاہر ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کو گجرات میں مسلم خواتین کے قتل عام‘ مظفر نگر میں مسلم خواتین کی عصمت دری کے واقعات سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن سیاسی مقاصد کے لئے تین طلاق کے مسئلہ کو اچھالا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس سلسلہ میں قانون سازی کریں۔ اس لئے کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس کو کامیاب بنانے سے ان مسائل کا حل برآمد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے تین طلاق کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرنے پارلیمنٹ کے مجوزہ اجلاس میں تیاریاں کی جارہی ہیں جس کے تحت تین طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کی سزا کی گنجائش رکھی جارہی ہے۔ تین سال کی سزا سنگین جرائم جیسے بغاوت‘ فساد وغیرہ میں ملوث افراد کو دی جاتی ہے۔ سزا کے تحت جہاں طلاق دینے والے کو جیل بھیجنے کی بات کہی گئی ہے وہیں پر مجوزہ قانون میں مطلقہ خاتون کو نان و نفقہ کے ساتھ رہائش اور کفالت کی ذمہ داری بھی دی جا رہی ہے۔ اگر طلاق دینے والا جیل جائے گا تو وہ کیسے اپنے مطلقہ بیوی اور بچوں کی کفالت کرسکے گا۔ اس طرح کا تین طلاق کا قانون مزید فتنہ اور فساد کا باعث ہوگا کیونکہ اس کے نتیجہ میں خواتین کی زندگیاں معلق ہو کر رہ جائیں گی۔ نہ وہ آزاد ہوسکیں گی اور نہ انہیں حقوق حاصل ہوں گے۔اس ضمن میں کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے فروری کے اجلاس میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں حکومت کے اقدامات اور قانون سازی کی شدت سے مخالفت کرنی ہے۔