بابری مسجدسانحہ:ہندوستانی جمہوریت پر بدنما داغ
مولانا اسرارالحق قاسمی
بابری مسجد کی شہادت کو پورے پچیس سال ہوگئے اور اس عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کی عدلیہ نہ تو بابری مسجد کو اس کا حق دلاسکی اور نہ ہی ان مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاسکا،جو اس پورے گھناؤنے عمل میں براہ راست شریک تھے۔اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ بابری مسجد کا انہدام نہ صرف ایک فرقہ اور ایک مذہب کے خلاف فسطائی قوتوں کی طرف سے طاقت کا وحشیانہ مظاہرہ تھا۔بلکہ ہندوستان کی عدلیہ ،سیکولرزم اور جمہوریت کا قتل بھی تھا۔۶؍دسمبر۱۹۹۲ء کو فرقہ پرست جنونیوں نے اس ملک کے مشترکہ کلچر اور سیکولروجودپرجو کاری زخم لگایا تھا وہ بابری مسجد کی بازیابی تک رستا رہے گا۔ اجودھیا اور ملک کے دیگر علاقوں میں وحشت و بربریت کا جو رقصِ بے ہنگام برپا کیاگیا تھا اس کی گونج صدیوں تک سنائی دے گی۔حصول آزادی کے بعد ہندوستانی آئین سازوں نے ایک سیکولر نظام حکومت کا تصور پیش کیا تھا اور کہاگیا تھا کہ اس ملک میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں سے مساویانہ سلوک ہوگا، یہ نظام حکومت کسی بھی وسیع الظرف روادار اور ترقی پسند معاشرے کی بنیاد بنتا،لیکن آئین کے نفاذ سے پہلے ہی۱۹۴۹ء میں۲۲؍اور ۲۳؍ دسمبر کی درمیانی شب میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کرمستقبل میں ہندوتواور فرقہ پرستی کی سیاست کو قومی سیاست بنانے کے لئے ٹھوس بنیاد رکھ دی گئی ،اس سلسلے میں اس وقت وجود میں آنے والی صوبائی ومرکزی حکومتوں کی جانی یا ان جانی غلطیوں کا راست دخل رہا کہ انہوں نے فوری طورپر اس ناسور کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے بجائے اسے ایک تناور درخت بننے کے لئے چھوڑ دیا۔
پنڈت جواہر لال نہرو کے نرم خو جمہوری مزاج نے فرقہ پرستی کے سیلاب پر بند باندھنے کی بہت کوشش کی،لیکن اس میں اتنی کامیابی نہیں مل سکی جتنی کہ ضروری تھی۔فرقہ پرست قوتوں کا مقصداقلیت کے حوالے سے اکثریت کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنا اور اقلیتوں کے خلاف جارحانہ مدافعت کے جذبے کو پروان چڑھانا تھا ۔ ہندوستان کے سیاسی منظرنامے پر ایسی طاقتیں اپنے آپ کو مضبوط بناتی رہیں۔ان قوتوں کو مستحکم کرنے اور معتبر بنانے میں بعض سیکولر جماعتوں کے انتہاپسند ہندو نیشنلسٹ لیڈروں نے بھی اہم رول اداکیا اور راجیوگاندھی کے سرکارمیں بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر شیلانیاس تک کی بھیانک غلطیوں نے ملک کی جمہوریت کے مستقبل کو اندھیروں کے حوالہ کردیا۔نہ صرف بابری مسجد کا تالا کھولنے کی اجازت دی گئی ،بلکہ اس پورے منظرکونیشنل ٹی وی چینلزپر دکھایاگیا،جس سے فرقہ پرست اور فاشسٹ قوتوں کو، جوہندومسلم منافرت کے رتھ پر سوار ہوکر ہندوستانی سیاست کو اکثریتی فرقہ کے عقائد اور اپنے ہندوتو نظریہ کے مطابق چلانے کی سالہاسال سے کوششوں میں مصروف تھی ،ایک سنہرا موقع فراہم ہوگیا۔پھر کیاتھا سنگھ پریوار کی فسطائیت کو وہ مقبولیت ملی جس کی انتہاوہ بھیانک صورت حال تھی جس نے دستور،عدالت عالیہ، پارلیمنٹ اور قومی یکجہتی سب کے وقار و اعتبار کو پامال کرتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کردیا۔اس طرح کے سازشی حادثہ میں کسی کا ہاتھ ہوتا ہے ،کسی کی زبان ہوتی ہے اور کسی کا دماغ ہوتا ہے،تو اس وقت کے پورے منظرنامہ کو سامنے رکھ کر یہ کہنا درست ہوگا کہ اس میں ہاتھ کلیان سنگھ کا تھا،زبان اڈوانی کی تھی اور دماغ نرسمہاراؤ کا تھا۔
سنگھ پریوار کے تخریب پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام کو اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر شنکر دیال شرما نے’’ملک دشمنوں کی کارستانی‘‘کہا تھااور سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی مسماری کو پوری ہندوستانی قوم کے لئے باعث شرم و رسوائی قراردیتے ہوئے لکھا تھا’’جو کچھ بھی مسمار کیاگیا وہ صرف ایک پرانی عمارت ہی نہیں تھی،بلکہ اکثریت کے احساس عدل اورمعقولیت پسندی پراقلیت کے بھروسے اور اعتماد کے لئے کاری ضرب تھی جس نے آئینی عمل اورقانون کی بالادستی میں اقلیت کے یقین کو متزلزل کردیا۔ایک بے یارومددگار پانچ سوسالہ قدیم عمارت،جس کی حفاظت صوبائی حکومت کے ہاتھوں میں ایک مقدس امانت تھی،توڑدی گئی‘‘۔۲۴؍ اکتوبر۱۹۹۴ء کو سپریم کورٹ نے مسٹر کلیان سنگھ کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے ایک دن قید اور دوہزار روپے جرمانے کی جو سزا سنائی تھی وہ بابری مسجد کے قریب پختہ پلیٹ فارم تعمیر کرنے کے سلسلے میں تھی۔توہین عدالت کا اصل مقدمہ جس کا تعلق ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کے شرمناک واقعات سے ہے ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔جس میں بی جے پی،وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل کے لیڈروں کے ساتھ پی وی نرسمہا راؤ کو بھی فریق بنایاگیا ہے۔ہندوستان کے کروڑوں انصاف پسند لوگوں کی نگاہیں تاہنوزسپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ بابری مسجد کو شہید کرانے والے سیاسی مجرموں کوکیا سزا دیتا ہے۔اس کے علاوہ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی،مرلی منوہر جوشی اور اومابھارتی کے خلاف بھی بابری مسجد شہادت کیس میں مجرمانہ رول اداکرنے پرلکھنؤسی بی آئی کورٹ میں کیس چل رہاہے،عدالت کو چاہئے کہ اس معاملے میں بھی جلد ازجلد فیصلہ سناکر مجرموں کو سزا دلوائے۔
بابری مسجد کے تعلق سے حق ملکیت کے جتنے مقدمے زیر سماعت ہیں،ان میں مسلمانوں کا کیس بہت مضبوط ہے۔یہ مقدمات الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤبنچ میں زیر سماعت تھے،جس میں مسلمانوں کے حق میں دستاویزات اور ثبوت اتنے پختہ تھے کوئی بھی عدالت انہیں نظر انداز نہیں کرسکتی،مگر حیرت کی بات ہے کہ ستمبر ۲۰۱۰ء میں جو فیصلہ آیا اس نے اس مسئلے کو اوربھی پیچیدہ بنادیا، کورٹ نے محض ’’آستھا‘‘کو بنیاد بناکر بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا،جسے مسلمانوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اورتب سے اب تک اس پر سماعت جاری ہے۔حالیہ دنوں میں مختلف ذرائع سے خبریں آئی ہیں کہ کچھ لوگ اپنے طورپر سیٹلمنٹ یا مصالحت کی کوششوں میں مصروف ہیں،حالاں کہ مسلم پرسنل لابورڈ اوردیگر نمائندہ اداروں نے واضح طورپر ایسی کسی بھی کوشش کی تردید کی ہے اور واضح کیاہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی قابلِ قبول ہوگا۔
مسلمانوں کا یہ ایک پختہ عقیدہ ہے کہ بابری مسجد ،مسجدتھی،ہے اور رہے گی ان شاء اللہ۔مسجد شہید ہوجانے یا خدانخواستہ اس کی جگہ کچھ اور بن جانے سے اس کی مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہوتی۔کیوں کہ مسجداینٹ پتھر کانام نہیں بلکہ اس جگہ کو مسجد کہتے ہیں جہاں وہ تعمیر کی جاتی ہے،مسجد تاقیامت مسجد ہے،نہ اس کی زمین بیچی جاسکتی ہے،نہ بطور تحفہ طشتری میں سجاکر کسی کو پیش کی جاسکتی ہے۔بابری مسجد کے تعلق سے مسلمانوں کا موقف نہ صرف مبنی بر حق ہے بلکہ اس کا حق ہونا تو ہندوتوکے علمبرداروں پر بھی واضح ہے ۔مایوسی کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا موقف ملک کے انصاف پسند غیر مسلموں کے سامنے بھی واضح کیا جائے،مقدمات کی پیروی پربھر پور توجہ دی جائے،جو لوگ اپنے فساد نیت اور ذاتی مفادات کے حصول کے لئے مصالحت وغیرہ کا شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اجتماعی طورپر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ان کی باتوں پر بالکل بھی دھیانہ نہ دیا جائے۔ کیوں کہ ماضی میں ایسی کئی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔۵؍دسمبر سے سپریم کورٹ میں اس بابری مسجد شہادت کیس کی لگاتار سماعت شروع ہونے والی تھی،مگرچیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ نے اس کے بجائے فروری۲۰۱۸ء میں فائنل سماعت کرنے کی بات کہی ہے،حالاں کہ عرضی گذاروں کی طرف سے یہ کہاگیا تھا کہ چوں کہ حکومت اس معاملے میں اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے،اس لئے اس کیس کی سماعت جولائی۲۰۱۹ء تک ملتوی کردی جائے۔بہر کیف ملک کے مسلمانوں کا متفقہ موقف یہی ہے کہ وہ عدالت عالیہ کے ذریعہ دیے گئے فیصلے کا احترام کریں گے،انہیں امید ہے کہ سپریم کورٹ تمام دلائل و شواہد سے آگاہ ہونے کے بعد اپنا فیصلہ تاریخی حقائق اور زمینی سچائی کو سامنے رکھ کر دے گانہ کہ آستھا کو بنیاد بناکر کوئی ایسا فیصلہ دیاجائے گا،جس سے عدلیہ کے تئیں ملک کے ایک بڑے طبقے کے اعتماد وویقین کو ٹھیس پہنچے۔
بابری مسجدسانحہ:ہندوستانی جمہوریت پر بدنما داغ
previous post