بابری مسجدسانحہ:سیاسی اسباب کے تناظر میں
تحریر:لالوپرساد یادو
ترجمانی:نایاب حسن
بابری مسجد شہادت کی پچیسویں برسی کے حوالے سے میں صرف ملک میں بنیادی قومی حقوق کے تئیں ہونے والے زبردست تغیرات پر اپنے حیرت و استعجاب کا اظہار کرسکتا ہوں؛کیوں کہ۱۹۸۰ء کے وسط سے ہی میں نے ملکی سیاست بطورِ خاص ہندوستانی قومیت کی ہیئت میں ہونے والی نمایاں بدیلیوں کا مسلسل مشاہدہ کیاہے۔ ۹۲-۱۹۸۹ء کے سیاسی احوال نے ہم عصرہندوستانی تاریخ کو شدید شکست و ریخت سے دوچار کیا،ایک طرف اُس اتحاد و اتفاق کا خاتمہ ہوگیا،جوسیکولرزم،سوشلزم اور مشترکہ جمہوری ریاست کے تصورکی بنیاد پر قائم تھا،دوسری طرف ہم نے تیزی سے ہندوانتہاپسندی کو بڑھتے ہوئے دیکھا، جس نے معاصر ہندوستانی سیاسی ڈسکورس میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل کرلیا۔گزشتہ اسی کی دہائی کے آغاز میں ہی اچانک بھارتیہ جنتا پارٹی کا ظہور اور ہندو نیشنلسٹ نظریے کی نمود ہوئی،۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء کے درمیان ۲؍سے ۸۵؍پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کرکے ہندورائٹ ونگ سے وابستہ اس جماعت نے قومی سیاست کے نقشے پر بھی اپنا رنگ جمالیااور مئی ۲۰۰۴ء تک قومی سطح کی حکمراں پارٹی رہی،اب ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی الیکشن میں غیر معمولی فتح حاصل کرکے یہ جماعت آزادی کے بعد کی ہندوستانی تاریخ میں ملک کے سوشل ڈیموکریٹک تانے بانے کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طورپر سامنے آئی ہے۔
میں اُس وقت خود سیاسی قیادت کا حصہ تھا؛چنانچہ دیکھ سکتا تھا کہ کس طرح بی جے پی اوراس کے حلیف سنگھ پریوار کے ذریعے سیکولر اتحاد کے خلاف سازش رچی جارہی تھی،مجھے اچھی طرح یادہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے چند دن پہلے منعقد ہونے والی قومی سلامتی کی میٹنگ میں مسٹر ایل کے اڈوانی نے کونسل کے ممبران کویقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا،مگر اس کے بعد ملک کے شمالی و مغربی خطوں میں جس قسم کا فرقہ وارانہ جتھہ بندی کا ماحول پیداہوا،اس کودیکھتے ہوئے ہم میں سے کئی ممبران کے پاس اڈوانی کے الفاظ پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہ رہی،حتی کہ ہم نے مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ ایودھیامیں فوج کی نفریاں بھیجی جائیں،مگر اس وقت کی مرکزی حکومت نے بی جے پی رہنماؤں کی یقین دہانیوں پر اعتماد کیا اور نتیجتاً چارصدی پرانی مسجد کو پچیس سال قبل منہدم کردیا گیا۔
اس سانحے کے بعد ملک بھر میں اقلیتوں ،بالخصوص مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشددکی ایک نئی لہر چل پڑی،اُس وقت (کے)بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مجھے اپنی ترجیحات کا ادراک تھا؛چنانچہ عوامی ،انتظامی وسیاسی قوت و شعورکی بیداری کی وجہ سے پورے صوبے میں کہیں بھی کوئی فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوا۔بہر کیف یہ سانحہ ایک مسجد ہی نہیں؛بلکہ ایک جمہوری ملک کے نظامِ قانون و عدالت پرعلانیہ حملہ تھا۔
سنگھ پریوار اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے رام مندر کے نام پر ایودھیاکا انتخاب کیوں کیا؟اس کو ہمہ گیر انداز میں سمجھنے کے لیے ہمیں اگست۱۹۹۰ء میں رونما ہونے والے ملک کے دلت اور دبے کچلے طبقات کی تحریک کوہندوستانی معاشرے کے لیے نقطۂ انقلاب سمجھنا چاہیے،منڈل کمیشن کے ذریعے۱۹۹۰ء میں دلتوں اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والے پچھڑے طبقات کے حق میں مثبت اقدامات کی سفارشات کی تنفیذ آیندہ ہندوستان کے سیاسیNarrativeکو ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی،اس پس منظر میں ہم ایک نمایاں سیاسی اتحاد دیکھ رہے تھے اور دلت و پسماندہ طبقات کے مسائل و مشکلات پر کھلے عام بولنے والی سیاسی پارٹیاں ہندوستان سیاست کے نمایاں کردار کے طورپر ابھر رہی تھیں،اپنے حقوق کے حصول کے لیے دلت و پسماندہ طبقات کا اس قدر اصرار کرنا گولوالکر کی کتاب ’’Bunch of Thoughts‘‘میں پیش کردہ خودارتکازی منووادی نظریات سے تحریک حاصل کرنے والے سنگھ پریوار کو کھل گیا۔انھیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ منڈل کمیشن کی سفارشات کی تنفیذ کے نتیجے میں پورے ہندوستان میں قائم ہونے والا یہ دوسرا اتحاد انھیں پوری طرح سیاسی منظر نامے سے غائب کردے گا؛چنانچہ ’’شیلا پوجن‘‘جیسی ڈرامائی مہم ان دبے کچلے عوام کی بیداری کا مقابلہ کرنے کی ایک مایوسانہ کوشش تھی،اس فرقہ وارانہ ہجوم کاری کا مریاداپرشوتم رام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،یہ تو منڈل کمیشن کی وجہ سے پسماندہ و دلت طبقات کے اتحاد کے بعد مذہب کو سیاست میں خلط ملط کرکے اپنے قومی سیاسی وجود کو بچائے رکھنے کی چال تھی اور اس وقت انھیں اپنی چال میں جزوی کامیا بی بھی حاصل ہوئی؛چنانچہ بابری مسجدی کے انہدام (۱۹۹۲ء) اور ممبئی فسادات(۱۹۹۳ء)کے بعدبی جے پی نے جلد ہی(۱۹۹۸ء میں) مرکز میں ایک اتحادی حکومت بنالی۔
البتہ ۲۰۱۷ء کا ہندوستان۱۹۹۲ء کے ہندوستان سے کافی مختلف ہے،نوے کی دہائی میں ہم نے مختلف جمہوری تغیرات اور قومی نقشے پرابھرنے والی سیاسی جماعتوں کے تئیں شدت پسند اکثریتی طبقوں میں شدید تباین و اختلاف دیکھا تھا،یہ بھی دیکھاگیا کہ ان انتہا پسند قوتوں نے جذباتی موضوعات کو بنیاد بناکرسماجی توازن و ہم آہنگی کو بگاڑنے کی صلاحیت کے باوجود مضبوط تکثیری بنیادوں پر قائم ہندوستان کے سماجی و سیاسی تانے بانے سے اپنے آپ کو جوڑے رکھا،پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کے انہدام کی بنیاد مذہبی شناخت ہی تھی،مگرجن سیاسی قوتوں نے ہندواتحاد کی اس مہم کی قیادت کی، وہ خود بہت جلد حاشیے پر پہنچ گئے،جس کا نمونہ۲۰۰۴ء کے عام انتخابات میں دیکھنے کو ملاکہ بی جے پی کو اپنی حکومت گنوانا پڑی اور اس کے بعدبھی ۲۰۰۹ء میں ترقی پسند اتحاد(یوپی اے) کو کامیابی حاصل ہوئی۔
مگر آج کے ہندوستان کی جو تشویش ناک حقیقت ہے ،وہ یہ کہ ملک کے سیاسی ڈسکورس میں نمایاں تبدیلی واقع ہوچکی ہے، لوگوں میں نہ صرف باہم مدغم اکثریتی ثقافتی قومیت کو قبول کرنے کا رجحان پنپ رہاہے؛بلکہ ملک کی اقلیتوں اور دوسرے گرے پڑے طبقات کی شہریت کے انکار وعدمِ قبول کا رویہ بھی بڑھ رہا ہے، اکثریتی فرقے کے انتہا پسندوں کی جانب سے گؤرکشاوغیرہ کے نام پرلوگوں کے خلاف پرہجوم تشدد،مذہبی انتہاپسندی پر اصرار و اعلان وغیرہ کا تسلسل یہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان سیاسی اعتبار سے۱۹۹۰ء سے ۲۰۱۴ء کے بعد کہاں تک پہنچا ہے۔اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ بابری مسجد انہدام کے معاملے میں ساراڈسکشن اس نقطے پر ہوتا ہے کہ یہ دومذہبی فرقوں کے درمیان کا جھگڑا ہے اور معاملہ بابری مسجد جس جگہ واقع تھی،اس کے حقِ ملکیت کا ہے،مگر ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس نے تاریخ کے اس سخت ترین دور کوجیاہے،میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہم انہدامِ بابری مسجد کے معاملے کو محض مسلمانوں سے جوڑ کرنہیں دیکھ سکتے،یہ تو ہمارے بنیادی جمہوری نظریے پر حملہ تھا۔اس وقت ہم ایک ایسے تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں کہ اگرہم سب دوبارہ اپنے آپ کو مجتمع نہ کرسکے،توبہت ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں جمہوریۂ ہند کا مشترکہ ثقافتی کردارسخت خسارے سے دوچار ہوجائے۔رائے،نظریہ،مذہب و اعتقاد اور قول و عمل کے اختلاف کو دبانے کی بجاے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے،پچیس سال قبل قرونِ وسطیٰ کی یادگارایک مسجد کاانہدام ہم سب سے جواب طلب کررہا ہے،کیاباپوکے خوابوں کا ہندوستان باقی رہے گا یا وہ اُس نظریے کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا،جس نے باپوکا قتل کیاتھا؟؟
بابری مسجدسانحہ:سیاسی اسباب کے تناظر میں
previous post