Home مباحثہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

by قندیل

مفتی اختر امام عادل قاسمی

مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور

بہت ہی افسوس اورندامت کے ساتھ کہناپڑتاہےکہ مسلم امت ایک انتہائی حساس اورمذہبی معاملہ طلاق بل میں بری شکست کھاچکی ہے .جس میں دشمنوں کے ساتھ ہمارے دوستوں کی خاموشی نے بھی بڑارول اداکیاہے .ہمارے مسلم ممبران پارلیامنٹ کی بڑی تعداداورکچھ علماء کے رہتے ہوئےبھی اس بل کی مخالفت میں ان کی طرف سےکوئی آواز نہیں اٹھائی گئی اور وہ اپنی مصلحتوں یاپارٹی پالیسیوں کی چادریں خاموشی کےساتھ اوڑھےرہے.اورعوامی اسٹیج پرواہ واہی لوٹنے والی ان کی زبانیں پارلیامنٹ میں گنگ رہیں .جتنی مذمت اس بل کی کی جارہی ہے اس سے کہیں زیادہ مذمت ان ممبران کے اس عمل کی ہونی چاہئے .اس لئےکہ کفر اور باطل اپنی روش پر چلتے ہیں اورچلتےرہیں گےمگر مسلمانوں کے لئےان سے مصالحت کاکوئی جواز نہیں ہے .مسئلہ کامیابی اورناکامی کانہیں ہے .مسئلہ غیرت قومی .حمیت دینی اورسعی وکوشش کاہے .اگر مسلمانوں کی تعداد کم ہوتوبھی کفر سے مقابلہ کیاجائےگا.اس سے سمجھوتہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے.بعض لوگ ان کی طرف سے صفائی دے رہےہیں کہ پارٹی کی مرضی کے بغیر تقریر نہیں کی جاسکتی تھی .اولایہ بات ہی غلط ہے .اسی طلاق ثلاثہ بل کے خلاف آسام کے ایک واحدغیرمسلم کانگریسی لیڈرنے پارلیامنٹ میں کیسے بیان دیا.دوسری بات یہ ہے کہ پارلیامنٹ میں جوبل پیش کئے جاتے ہیں ان میں گوکہ عام روایت یہی ہے کہ پارٹی کے خم وابروکودیکھ کرووٹ دئیے جاتے ہیں .لیکن وہیں خاص حالات میں ضمیر کی آوازپربھی ووٹ دینے کی بھی روایت رہی ہے.اورآخری بات یہ ہےکہ اگرمان لیاجائےکہ واقعتاپارٹی کی مجبوری تھی توجوپارٹی آپ کوشریعت کےمعاملہ میں رکاوٹ بنے.شریعت میں اس کی رکنیت قبول کرنے کی گنجائش ہے ؟بلکہ.ایسی پارٹی کوسیکولرکہنابھی درست نہیں ایسی پارٹی سے استعفادےدیناضروری ہے .اسی لئےعلماء نےلکھاہےکہ اگرکوئی غیراسلامی پارلیامنٹ شریعت کےخلاف کوئی بل پاس کرےاس کی مخالفت پارلیامنٹ میں کرناضروری ہے.چاہےاس کی آوازصدابصحراثابت ہو.لیکن اللہ کے یہاں وہ بری الذمہ قرارپائے گا.غیرشرعی بل سےاختلاف نہ کرناعملااس کی حمایت کرناہے.اگرعلماء بھی اپنی غیرت ایمانی کامظاہرہ نہ کریں توکس سے یہ امید رکھی جائے گی؟
اسی طرح ایسےحساس مواقع پرکسی ممبرپارلیامنٹ کاغیرحاضررہنابھی درپردہ اس کی مددکرناہے.جب کہ بی جےپی نےاپنےجملہ ممبران کےلئےوہپ جاری کیاتھاکہ کوئی اس دن غیرحاضرنہ رہے.وہ اس مسئلہ کی حساسیت سےواقف تھے.لیکن ہم غافل ہیں .علاقائی کوئی مسئلہ شریعت سے اہم نہیں ہے .افرادکونظریات پرقربان کیاجاتاہے .نظریات کوافرادپرنہیں .یہ سب بعدازواقعہ تاویلات ہیں .اورعذرگناہ بدترازگناہ .
کل کےتجربہ سے حضرت تھانوی کی فکرکی سچائی بھی سمجھ میں آتی ہےجوانہوں نےآزادی ملک سےقبل پیش کی تھی کہ کسی غیرمسلم پارٹی میں مسلمانوں کی شمولیت بحیثیت رکن درست نہیں .اس لئے کہ مسلمان دوسرےدرجہ کے ممبرہونگے.اوران کوحق بولنے کی آزادی حاصل نہ ہوگی.حضرت تھانوی نے مشورہ دیاتھاکہ مسلمان اپنی پارٹی خودبنائیں .اوراتحادکی طاقت پیداکریں .پھراگرضرورت ہوتوغیرمسلم پارٹی سے متوازی طورپراتحاد کرسکتے ہیں .اس کےبغیرمسلمانوں کےساتھ رویہ کاتوازن برقرارنہیں رہ سکتا.کل اسدالدین کی بے باکی اس کی خودمختاری کی وجہ سے تھی .اوراس کاضمیر بھی زندہ تھا.اوردوسرےحضرات بظاہراپنی بڑی بڑی نمائشی شخصیتیں لئے اپنی بے بسی یابےضمیری کاماتم کرتے رہے….لوگوں کوغورکرناچاہئے…..تف ہےان اہل قلم پر بھی جوخومخواہ ایسے مردہ ممبران کی حمایت میں اپنی صلاحتیں خرچ کرتے ہیں .اور اپنی بےحسی کےتابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں .یہ وقت ہے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

You may also like

Leave a Comment