Home تجزیہ ایک غلط فہمی کا ازالہ

ایک غلط فہمی کا ازالہ

by قندیل

کئی دنوں سے واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ پر ’’ ارباب دارالعلوم دیوبند کی بے حسی‘‘ کے عنوان سے کسی صاحب کی تحریر گردش کر رہی تھی، جس کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند سے منسلک لوگوں میں کافی بے چینی تھی کہ آخر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے،’’ قندیل‘‘ کے بہت سے قارئین بھی اس حوالے سے سوالات کر رہے تھے، میں نے دارالعلوم دیوبند کے استاذ مفتی اشرف عباس قاسمی سے اس سلسلے میں حقیقت معلوم کرنی چاہی ،تو مفتی صاحب نےکسی قدر مفصل تحریری جواب دیا، میں یہ جواب قارئین کی نذر کر رہا ہوں؛ تاکہ اس حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط فہمی دور کیا جا سکے اور حقیقی صورتحال سامنے آ سکے ۔(عبدالباری قاسمی، مدیر قندیل ڈاٹ اِن)
دارالعلوم دیوبند پر خانوادہ قاسمی کے احسانات، حجۃ الاسلام کے تأسيسی کردار. حضرت حکیم الاسلام کے ساٹھ سالہ زریں دور اہتمام اور حضرت خطیب الاسلام کی 35 سالہ خدمات کے حوالے سے اس تحریر میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بالکل مبنی بر حقیقت ہے، بلکہ حقیقت اس سے بھی بڑھ کر ہے. منتسبین دارالعلوم دیوبند کی کی گردن ان تمام محسنین کے احسان کے آگے خم ہے. البتہ ارباب دارالعلوم پر جس بے حسی کا الزام عائد کیا گیا ہے وہ حقیقت سے پرے ہے. ارباب دار العلوم بھی حضرت مولانا سالم صاحب کی رحلت پر دکھی اور غم زدہ ہیں، بلکہ ارباب انتظام میں کئی شخصیات وہ ہیں جنھوں نے بہ راہ راست حضرت مرحوم سے کسب فیض کررکھا ہے اس معنی کر ان کا غم اور بڑھاہوا ہے.چنانچہ وفات سے قبل ہی حضرت کی تشویشناک حالت کی خبر سن کر متعدد اساتذہ دارالعلوم اور منتظمین نے آستانہ قاسمی پر حاضر ہوکر مزاج پرسی کی. اور جوں ہی انتقال کی خبر آئی اساتذہ وطلبہ کے علاوہ خود حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب مہتمم دارالعلوم اور نائب مہتمم حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی بھی مرحوم کے دولت کدے کی طرف دوڑ پڑے اور متعلقین سے اظہارِ تعزیت کیا. اور حضرت مولانا سفیان صاحب کے مشورے سے احاطہ دارالعلوم میں بہ حسن وخوبی نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے بہتر انتظامات کیے، دوسرے دن نائب مہتمم حضرت مولانا سنبھلی صاحب نے وفد کے ہمراہ مولانا سفیان صاحب سے ملاقات کرکے ان کی خدمت میں دارالعلوم کی طرف سے باضابطہ تعزیتی تحریر پیش کی، اس دوران مولانا سفیان صاحب نے نماز جنازہ کے تعلق سے دارالعلوم کے تعاون اور انتظام کی سراہنا بھی کی. اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کی نمائندہ شخصیت، سینئر استاذ حدیث، مخدوم ومکرم حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم نے دوسرے دن وقف دارالعلوم دیوبند میں منعقد تعزیتی اجلاس میں بہ نفس نفیس نہ صرف شرکت کی بلکہ خطاب بھی فرمایا جس میں حضرت خطیب الاسلام کی گوناگوں صفات اور خصوصیات کا فیاضی کے ساتھ تذکرہ کیا…. خلاف تحقیق یہ بات بھی لکھ دی گئی ہے دارالعلوم میں قرآن خوانی کا اہتمام نہیں کیا گیا، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ وفات کی اطلاع کے معا بعد اہتمام سے شعبہ حفظ کے صدر کے نام قرآن خوانی کے لیے حکم نامہ جاری کردیا گیا تھا، دوسرے دن حفظ کے تمام اساتذہ نے اہتمام میں تعمیل حکم کی تحریر داخل کی ہے. یہ ساری تحریریں موجود ہیں. البتہ یہ ضرور ہے کہ تعزیتی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا، دراصل ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دو دن بعد ہی امتحان سالانہ شروع ہونے جارہا تھا، اور امتحان سے ہفتہ عشرہ قبل ہی حاضری کے رجسٹر بند ہو جانے اور امتحان کی تیاری میں مصروف ہوجانے کے سبب عملاً چھٹی سی ہوجاتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ دارالعلوم بہ تدریج تعزیتی اجلاس کے سلسلے کو ہی مفتیان کرام کے توجہ دلانے کے بعد ختم کر نے کے حق میں ہے. چنانچہ سال گزشتہ شعبان میں دارالعلوم کے ہردلعزیز استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کے لیے بھی تقریباً انہی اسباب کے پیش نظر جلسہ تعزیت منعقد نہیں کیا جا سکا. اس لیے معترض کو الزام واتہام سے پہلے حقیقت حال جاننے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے تھی. اس سے بلاوجہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں. بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ دونوں طرف کے بزرگوں نے اپنے سابقہ اختلاف کی حدت وشدت اپنی حیات میں ہی کم کردی تھی اور وہ اس کوشش کے ساتھ اس جہاں سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان کے اخلاف اور نسل نو کی طرف یہ منتقل نہ ہو نے پائے، ان سب کے باوجود اس طرح کی تحریر انتہائی نامناسب ہے. اشرف عباس قاسمی یکم شعبان 1439ھ

You may also like

Leave a Comment