اشرف عباس قاسمی
استاد دارالعلوم دیوبند
خانوادہ قاسمی کے گل سرسبد،علوم نانوتویؒ کے شارح وامین اور نسلوں کے معلم ومربی حضرت مولانا سالم صاحب قاسمیؒ بھی 26رجب 1439ھ 14اپریل 2018ء کی دوپہر کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا اپنی عمرطبعی کو پہنچ چکے تھے،اور ایک عرصے سے صاحب فراش تھے اور وفات سے محض ایک روز قبل جب عیادت کے لیے چند اساتذہ دارالعلوم کے ہم راہ حاضری ہوئی،تو آپ کی کیفیت دیکھ کر ہر کوئی خطرہ بھانپ رہاتھا،اس کے باوجودآپ کے انتقال کی خبر سے ملت دم بخود ہے،اور یہ ایسا ناگہانی حادثہ معلوم ہورہاہے جس سے ہر دل بے چین اور ہرآنکھ اشکبار ہے۔اور کیوں نہ ہو جب کہ آپ کی وفات درحقیقت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔
آپ اس عہدزریں کی آخری یادگار تھے جب دارالعلوم دیوبندکی مسند حدیث سے شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ ،پوری فیاضی کے ساتھ علم وحکمت کے گہر لٹارہے تھے تو دوسری طرف حکیم الامت شیخ تھانویؒ ،اپنی خانقاہ سے راہ نوردگان طریقت کو معرفت ومحبت کے جام پلارہے تھے،ہمارے علم کے مطابق حضرت مولانا آخری شخص تھے جنھوں نے بہ راہ راست دونوں چشمہ صافی سے اپنے قلب ونظر کو جلا بخشی تھی،پھر خاندانی نجابت،ذاتی صلاحیت اوروالد گرامی قدرحضرت حکیم الاسلامؒ کی نگاہ کیمیااثر اور سفر وحضر کی مسلسل تربیت نے آپ کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کرداراداکیاتھا۔1948ء میں فراغت کے بعد دارالعلوم سے ہی آپ کی تدریسی خدمات کا آغاز ہوا،اور کامیابی کے ساتھ بہ تدریج آ پ نے درجہ وسطی اور علیا کی کتابوں کادرس دیا،1981ء تک یہ سلسلہ جاری رہا،چنانچہ ملک کے کئی مشاہیر علما آپ کے فیض یافتگان میں شامل ہیں،خود اس وقت دارالعلوم دیوبند میں علیا کے کئی اساتذہ حدیث وہ ہیں جو باضابطہ آپ کے شاگرد ہیں۔1982ء میں دارالعلوم میں جو قضیہ نامرضیہ پیش آیا اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ جس یکسوئی اور روانی کے ساتھ علمی فیض جاری تھا ،وہ جاری نہ رہ سکا،اور اس وقت کے حالات کے پیش نظر اپنی پوری توانائی صرف کرکے آپ نے وقف دارالعلوم کی بناڈالی اور وہاں سے درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔اور وقف کو رفعت وبلندی عطا کی۔
آپ کامیاب مدرس کے ساتھ باکمال مقرربھی تھے،لیکن عام خطیبوں کی چیخ وپکار اورجذباتی گفتگو کے بجائے آپ انتہائی سنجیدہ،مدلل،مرتب اور عالمانہ گفتگو کرتے تھے،جس سے اہل علم خوب فیضیاب ہوتے تھے،اس حوالے سے بھی آپ اپنے والدگرامی قدر کے عکس جمیل تھے۔
آپ سے ملاقات اور زیارت کا شرف غالبا پہلی بار اس وقت حاصل ہوا جب1996ء میں جامعہ مظہرسعادت ہانسوٹ گجرات ، آپ کا ورودمسعود ہوا،اس وقت آپ نے مبسوط علمی خطاب بھی فرمایاتھا،1999ء میں دارالعلوم میں داخلے کے بعدآپ کے درس بخاری ومسلسلات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ،آپ کو مسلسلات کی اجازت اپنے والد گرامی قدر سے تھی۔ اور آپ نے بتایاتھا کہ والد بزرگوار کوحضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ نے ایک موقع پر مظاہر علوم میں بڑے اہتمام سے مسلسلات پڑھواکر اجازت مرحمت فرمائی تھی. مسلسلات کی بعض منتخب احادیث پڑھاکر آپ نے حدیث کی تمام متداول کتابوں کی اجازت عامہ بھی سامع طلبہ کو شرائط معتبرہ کے ساتھ عطا کردی تھی،اس طرح ہمیں بعض کتابوں کی سند عالی حاصل ہوگئی،بالخصوص موطأ بروایۃ محمد بن الحسن الشیبانی کی، کیوں کہ ہم نے دارالعلوم میں یہ کتاب استاذمحترم حضرت مفتی امین صاحب مد ظلہ العالی سے پڑھی،اور انھوں نے یہ کتاب حضرت مولانا سالم صاحبؒ سے پڑھ رکھی تھی،اس طرح ہمیں بہ راہ راست بھی اس کی اجازت حاصل ہوگئی تھی۔
جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ آپ کو بعض ابتدائی کتابیں حکیم الامت،مجددالملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بھی پڑھنے کی سعادت حاصل تھی، اس لیے عرصے سے خواہش تھی کہ آپ سے ان ابتدائی کتابوں کو پڑھ کراس سلسلے کی سعادت وبرکات حاصل کرنی چاہیے،لیکن اپنی کسل مندی اور ٹال مٹول کی کیفیت آڑے آتی رہی،البتہ سال گزشتہ آپ کے سفر وحضر کے خادم ،وقف دارالعلوم کے استاذ جناب مولانا شاہد صاحب قاسمی سے بات کی گئی،مولانا نے حضرتؒ سے باضابطہ اس کی اجازت لی، اور عصر کے بعد ہم چند اساتذہ دارالعلوم آستانہ قاسمی پر حاضر ہوگئے، حضرت کے سامنے ہرایک کا انفرادی تعارف ہوا،حضرت والا نے نے بے انتہا شفقت اور محبت کا مظاہرہ فرمایا،اور میزان کا ابتدائی حصہ پڑھواکر جس کے پڑھنے کی سعادت بھی احقر کے حصے میں آئی،حضرت والا نے بڑی بشاشت کے ساتھ اجازت مرحمت فرمائی۔اس کے علاوہ کتب حدیث کی اجازت سے بھی ایک بار پھر سرفراز فرمایا۔حضرت نے مخصوص انداز میں یہ کلمات ارشاد فرمائے:’’ آپ حضرات کو بھی نسبت اشرفی حاصل ہوگئی ۔‘‘
حضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس پوری مجلس کو قلم بند کرکے مجھے بھی پیش کردیں، لیکن افسوس اس وقت ایسا نہیں کیا جاسکا،اور اب اس یادگار مجلس کی بعض تفصیلات ایسے وقت میں قلم بند کی جارہی ہیں کہ اب اظہار حسرت اور اپنی کوتاہی پر ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
دیوبند میں رہتے ہوئے جس کثرت کے ساتھ حاضری ہونی چاہیے تھی،وہ تو نہیں ہوسکی، البتہ جب بھی حاضری ہوئی اور دارالعلوم میں خدمت تدریس سے وابستگی کا تذکرہ آتا تو آپ غیر معمولی شفقت کا مظاہرہ فرماتے اور خاص توجہ سے نوازتے،یہ یقیناًآپ کا بڑاپن اور وسعت قلبی تھی،دارالعلوم آپ کے بزرگوں کا لگایا ہوا شجر سایہ دار ہے،لیکن حالات ایسے بنے کہ اس مرکز علم ودانش سے آپ کو علاحدہ ہونا پڑا، جس کا گہرا اثر قلب ودماغ پر ہونا فطری ہے، ان سب کے باوجود ہم نے آپ کی زبان سے دارالعلوم کا تذکرہ خیر کے ساتھ ہی سنا،بلکہ ایک بار گجرات میں ایک صاحب نے ہمارے سامنے تقسیم کے قضیہ نامرضیہ اور موجودہ منتظمین کے حوالے سے کچھ نامناسب باتیں کہیں توآپ نے نہ صرف اعراض فرمایا بلکہ ناگواری کا بھی اظہار کیا۔اس طرح آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ دارالعلوم کے قضیے کی وجہ سے جانبین میں جو حدت اور شدت تھی، اسے آپ نے اور دوسری جانب کے بزرگوں نے بہ تدریج کم کیا،اور اپنے اخلاف اور نسل نو کی طرف اسے منتقل نہیں ہونے دیا،اوراللہ پاک کا شکر ہے کہ ہم اس کے خوش گوار اثرات نمایاں طور پر محسوس کررہے ہیں ۔
آپ کی وفات پرجس طرح پوراملک ماتم کناں ہے،اور لوگ ایک دوسرے کی تعزیت کررہے ہیں اس سے آپ کی غیرمعمولی محبوبیت ومقبولیت کا اندازہ ہوتاہے۔ایسی محبوبیت جس کا اعلان پہلے آسمان والوں میں ہوتاہے اور پھر زمین والوں میں وہ مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔امید ہے کہ رب کے حضور بھی آپ کا اسی طرح اعزازواکرام ہورہاہوگا۔ رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ،تقبل حسناتہ وتجاوز عن سیآتہ،ادخلہ الجنۃ الفردوس الاعلی، وانجاہ من النار والعذاب۔