محمد ابوبکر عابدی ،سیتامڑھی
ریسرچ اسکالرشیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند
8218206330
ایڈز (Aids)جدید زمانے کی ایسی خطرناک اور جان لیوا بیماری ہے ، جو ایک وائرس (Virus)کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ اِس مرض میں انسانی جسم کی قوت مدافعت بتدریج سلب ہو جاتی ہے ، رفتہ رفتہ بدن کا مدافعتی نظام بالکل ناکارا بن جاتا ہے۔ لاحق ہونے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور بھیانک صورت حال اختیار کر لیتی ہے، اس جراثیم کو ایچ آئی وی HIVکے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اس تعدیہ میں مبتلا شخص کسی بھی انفیکشن (Infection)کا ہدف بن سکتا ہے ،یعنی اس پر کوئی دوسرا وائرس جرثومہ (Bacteria)فنگس (Fungus)یا طفیلہ (Parasite)حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ایڈز کا یہ موقع پرستانہ وائرس زیادہ تر خون، جلد (Skin)، پھیپھڑوں، نظام ہاضمہ، عصبی نظام، دماغ اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ جسم کی دوسری رطوبتوں تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی پایا جا سکتا ہے، مگر بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ اور اس مرض کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایڈز کا مریض عموماً بیماری کی تشخیص ہو جانے کے دو یا تین برس کے بعد موت کے گھاٹ اترجاتا ہے۔
ایڈز کا سراغ:
ایڈز ایک ناقابل علاج مرض ہے جس کا انکشاف پہلی بار ۱۹۸۱ء میں براعظم افریقہ میں ہوا، ممکن ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں ایڈز کے مریض موجود رہے ہوں لیکن ان کی تعیین نہیں ہو پائی تھی۔ ۱۹۸۴ میں ایشیا میں پہلا ایڈز کا واقعہ تھائی لینڈ میں سامنے آیا۔ ۱۹۸۵ تک صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سولہ سو مریض پائے گئے اور ۱۹۸۶ میں انیس سو مریض ہوگئے۔ ۱۹۹۴ میں ایڈز کے وائرس (HIV)پوزیٹو سے متاثر لوگوں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائز یشن کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۰ء کے اختتام میں ایڈز سے وابستہ بیماری میں مبتلا 21.8ملین افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ اور آج بھی یہ بیماری کافی رفتار کے ساتھ پھیل رہی ہے جو ہمارے معاشرے کے لئے زبردست چیلینج پیدا کر رہی ہے۔ (مستفاد از : بزم اردو لائبریری۔ معلومات عامہ، ص؍۲۹۴)
ایڈز کے اسباب:
اس ہلاکت خیز بیماری کی بنیادی وجہ جنسی بے راہ روی ہے یعنی بہ یک وقت کئی خواتین اور مردوں سے جنسی تعلقات اس بیماری کے جراثیم کو پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ ایڈز مندرجہ ذیل چار طریقوں سے پھیلتا ہے:
(۱) متاثرہ عورت یامرد سے جنسی تعلقات کے نتیجہ میں۔
(۲) متاثرہ مریض کے خون کے ذریعہ (ایڈززدہ خون کو صحت مند جسم میں چڑھانے)سے۔
(۳) ایڈز سے متاثر مریض کے لئے استعمال کی گئی سوئی، بلیڈ، ریزر اور قینچی وغیرہ کے استعمال سے۔
(۴) ایڈز کا وائرس متاثرہ ماں کے بچے میں حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتاہے۔
اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک طریقے سے بھی گزرا ہو تو اس کو ایڈز کے جراثیم متاثر کر سکتے ہیں، خواہ و کسی بھی جنس یا عمر کا ہو۔ لہٰذا اس لئے اس سلسلے میں ہمیشہ محتاط طریقہ اپنانی چاہئے۔
ایڈز کی علامتیں:
ایڈز کی علامتیں ظاہر ہونے سے قبل اس کا وائرس انسانی جسم میں کئی مہینوں یا برسوں تک خوابیدہ حالت میں رہ سکتا ہے، پھر دھیرے دھیرے علامات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں، مندرجہ ذیل علامات ایڈز مریضوں میں بہت عام ہیں۔
(۱) تین ماہ سے کم عرصہ میں ۱۰؍فیصد وزن کا کم ہو جانا۔
(۲) مسلسل ایک ماہ سے زائد عرصہ تک بخار کا رہنا۔
(۳) ایک ماہ سے زیادہ مدت تک اسہال کا رہنا۔
(۴) مسلسل کھانسی کا رہنا۔
اس کے علاوہ بھی کئی نشانیاں ہیں ، لہٰذا کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جاکر مکمل ایڈز کے ٹیسٹ کرانی چاہئے ۔ الغرض ! جب تک مرض کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اس وقت تک ایسا شخص H.I.V.کا مریض کہلاتا ہے، لیکن جب اس شخص کا دفاعی نظام کمزور ہو جائے اور علامتیں ظاہر ہو جائیں تو وہ ایڈز کا مریض کہلائے گا۔
ایڈز اور H.I.V.228میں کیا فرق ہے؟
نیویارک (نیوز ڈیسک)’ایچ ائی وی‘ اور ’ایڈز‘ کو عموماً ایک ہی خوفناک بیماری کے دو مختلف نام سمجھاجاتا ہے، لیکن میڈیکل سائنس کے مطابق دونوں میں واضح فرق ہے۔ ایچ آئی وی ہیومن ایمیونو ڈیفی شینسی وائرس (Human Immunodeficiency Virus)کامخفف ہے۔ جب کسی شخص کو ایچ آئی وی پازیٹو قرار دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے خون میں (H.I.V.)وائرس منتقل ہو چکا ہے۔ لیکن وائرس کے جسم میں منتقل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ شخص ایڈز کا مریض ہو چکا ہے، کیونکہ یہ وائرس کئی سال تک جسم میں خوابیدہ حالت میں رہ سکتا ہے۔ صرف ایچ ائی وی پازیٹو ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تا حال جسمانی مدافعت اس قدر متاثر نہیں ہوئی کہ انسان بیماری کا مقابلہ نہ کر سکے۔ لہٰذا ایسے شخص کو ایڈز کا مریض نہیں قرار دیا جاتا ہے۔
البتہ اس شخص کے ساتھ جنسی تعلق، اس کے خون کے انتقال یا اس کے استعمال کی ہوئی سرنج استعمال کرنے کی صورت میں وائرس کسی دوسرے شخص میں منتقل ہونے کا خدشہ ضرور ہوتا ہے۔
اور جب یہ وائرس متاثرہ شخص کے جسم میں متحرک ہو جاتا ہے تو اس کی جسمانی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی اگر اسے کوئی بھی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ ان مریضوں میں بخار، اسہال اور ٹی بی جیسا انفیکشن ہو جائے تو اس کا علاج تقریبا نا ممکن ہوجاتا ہے، کیونکہ جسم کی قوت مدافعت ایچ ائی وی وائرس کی وجہ ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اس صورت حال کو ایڈز، یعنی ایکوائرڈ ایمیونو ڈیفی شینسی سنڈروم (Acquired Deficiency Syndrome)کا نام دیا جاتا ہے۔
(روزنامہ پاکستان، چیف ایڈیٹر: مجیب الرحمن شامی۔ ۱۹؍نومبر ۲۰۱۵ )
ایڈز لاحق ہونے کا علم کیسے ہوگا؟
ایڈز ہونے کا علم صرف ٹیسٹ یا معائنہ کرانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے ، اگر آپ کو لگے کہ آپ کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہے جس کی تعیین نہیں ہو پارہی تو آپ کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں، تاکہ وہ آپ کے لیے صحیح دوا تجویز کرسکے، کیوں کہ صرف ڈاکٹر ہی خون ٹیسٹ کرکے یہ بتا سکے گاکہ آپ کو یہ انفکشن لاحق ہوچکا ہے یا نہیں۔
مدافعتی کیمیکل کی تیاری:
1989میں ’’سان فرانسسکو کے سائنس دانوں‘‘ نے ایڈز کے خلاف ایک مدافعی کیمیکل تیار کیا تھا جو کار گر ثابت نہیں ہوسکا۔ دسمبر 1995میں ’’امریکن یونیورسٹی آف میری لینڈ‘‘ کے سائنس دانوں کی ایک جماعت نے انسانی خلیوں کی مدد سے ایک قدرتی کیمیکل سی. ڈی 8 ایسا تیار کیا ہے، جس میں ایڈز کے خلاف مدافعت کی بھر پور طاقت و قوت موجود ہے۔ لیکن پھر بھی ابھی تک مکمل طور پر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
اس وقت ایڈز کی دواؤں کے میدان میں جس دوا کا بول بالا ہے اسے "Zidvudine”یا عرف عام میں اسے AZTکہتے ہیں اور یہ Anti Retroviralکے تجارتی نام سے فروخت کی جاتی ہے۔ لیکن AZT’’Bon marrow‘‘ میں زہریلی ثابت ہوتی ہے، چاہے تھوڑی ہی مقدار میں کیوں نہ استعمال کی جائے۔ بلکہ باضابطہ طور پر برطانوی تفتیش کار تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فائدوں کے ساتھ ساتھ اس سے برے اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں اور اس دوائی سے مریض کو جی متلانے اور تھوک غائب ہوجانے سے لے کر؛ بے خوابی، شدید نوعیت کی خون کی قلت، پھیپھڑوں کی بیماریوں جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں، جو مریض کے لیے موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ اس لیے خود کی من مانی کیے بغیر اس بیماری کے علاج و تدارک کے لیے جلد ازجلد کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ وہ صحیح دوا تجویز کرسکے۔ بہر حال اس مہلک اور لا علاج مرض کی کامیاب ترین دوا کے حصول کے لیے ریسرچ جاری ہے، اور محققین ایڈز کے کامیاب ترین علاج کے لیے پر امید ہیں۔
کچھ حقائق:
(۱) ایڈز کا مرض دنیا کی چوتھی بڑی بیماری کے طور پر شمار ہوتاہے، اور اقوام متحدہ کے تحت ایڈز کا عالمی دن سب سے پہلے یکم دسمبر 1987 میں منایا گیا۔ یہ دن منانے کا مقصد عوام میں اس مہلک مرض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کے بارے میں شعور وآگاہی پیدا کرنا ہے۔
(۲) افریقہ میں یہ بیماری سینکڑوں سال پہلے موجود تھی جو سبز بندروں کے ذریعہ سے پھیلی اور آج بھی ایچ، آئی، وی کے سب سے زیادہ واقعات افریقہ میں سامنے آرہے ہیں ، جہاں متاثرہ لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔
(۳) پوری دنیا میں ہر روز چھ ہزا رسے زائد افراد اس بیماری سے متاثر ہورہے ہیں۔
(۴) دنیا بھر میں ہر نو ماہ کے بعد ایڈز کے مریضوں کی تعداد دو گنا ہوجاتی ہے۔
(آزاد دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا)
مشہور ترین ممالک میں ایڈز سے متاثر افراد کی تعداد:
1
ساؤتھ ا فریقہ
6,984,600
2015
2
نائجیریا
3,391,600
2014
3
انڈیا
2,118,600
2015
4
پاکستان
102,000
2015
5
بنگلہ دیش
9,6000
2015
6
سری لنکا
4,200
2015
7
نیپال
39,400
2015
8
چین
780,000
2012
9
یونائٹیڈ کنگ ڈم
126,700
2013
10
تھائی لینڈ
438,100
2015
11
اسپین
148,900
2015
12
اٹلی
136,800
2015
13
آسٹریلیا
26,900
2015
اور مجموعی اعتبار سے پوری دینا میں 2015کی رپورٹ کے مطابق 36,710,700افراد ایڈز سے متاثر ہیں۔اور ہندوستان میں منی پور، ناگا لینڈ، میزورم جیسی ریاستوں میں 2015کی رپورٹ کے مطابق جنسی بے راہ روی کی وجہ سے 87%افراد اس بھیانک مرض میں مبتلاہیں۔لیکن پھر بھی اس سلسلہ میں ہندوستان کی حکومت بہترین قدم اٹھا رہی ہے جس کی اقوامِ متحدہ نے بھی تعریف کی ہے۔
چند احتیاطی تدابیر:
ایڈز پر قابو پانے کے طریقے آسان ہیں لیکن عملاً مشکل ہے، سماجی رو سے اور عوامی اخلاق میں سدھار کے ذریعہ ہی اس جان لیوا مرض پر قابو پایا جاسکتاہی، ورنہ بہت مشکل ہے۔ اس مہلک مرض سے محفوظ رہنے کے لیے درج ذیل اسباب اختیار کرنے چاہئیں:
(۱)ہمیشہ اپنے شریک حیات تک محدو د رہیں۔
(۲) جنسی بے راہ روی سے اجتناب کیا جائے۔
(۳) متاثرہ اشخاص کا خون غیر متاثر شخص کو نہ چڑھائیں: اس کا خون غیر متاثر افراد کے خون پر گرنے نہ پائے۔
(۳)دوسروں کے استعمال شدہ بلیڈ، سرنج، قینچی اور ریزر جیسے اوزار کو ہر گز استعمال نہ کریں۔
(۵) اگردونوں جنسی ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی ایڈز کا مریض ہے تو ڈاکٹر کے مشورے سے غلاف کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔
(۶) ایڈز سے متاثرہ عورتیں حمل سے گریز کریں۔
(۷) ایڈز سے متاثر افراد کا ٹوتھ برش ہر گز استعمال نہ کریں۔
معاشرہ کے نام ایک پیغام:
فحاشی و عریانیت اور جنسی راہ روی آج کے دور کا ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے، پوری دنیا اس کے لپیٹ میں ہے، مغربی ملکوں میں فحاشی کو قانونی درجہ حاصل ہو چکا ہے، آزادی کے نام پر انسانوں کوحیوانوں کی صف میں کھڑا کیا جارہاہے، ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر بھی زنا و فحاشی کوعام کیا جاتاہے، بڑے شوق اور فخر کے ساتھ لوگ ویلن ٹائن ڈے مناتے ہیں، بے شرمی کی حد یہ ہے کہ مسلمان بھی اس شرمناک فعل میں مبتلا ہیں، عزت و ناموس کوتار تار کرتے ہیں، اور انہیں ذرہ برابر بھی حیا نہیںآئی،اورمغربی معاشرہ کے انسان تو کتوں کی طرح بے حجابانہ جنسی ہوس کا ری میں مبتلا ہیں، حقیقت کی رو سے دیکھا جائے تو اب کوئی جگہ بھی خاص نہیں رہا مغرب ہو یا مشرق ، عرب ہو یا عجم ہرجگہ بے حیائی، فحاشی، عریانیت اور جنسی بے راہ روی کابازار گرم ہے۔ مزید حیرت و افسوس اس بات پر ہے کہ جدید زمانے کے اسلامی ممالک کے حکام بھی بے حیائی کی معاونت پر تلے ہوئے ہیں اور انہیں کچھ بھی احساس نہیں ہے۔
اس المناک صورت حال میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کواس لعنت سے بچا سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں حیا کو ایمان کا لازمی جز قرار دیاگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’إذا فاتکل الحیاء فافعل ماشئت‘‘ عورتوں کے لیے حجاب ضروری قرار دیا گیا، مردوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، بری نگاہ کو شیطان کا تیر قرار دیاگیا ہے،بے حیائی اورعریانیت کے سبب اس وقت انسانیت ایڈز کے مشکل عذاب الٰہی سے دوچار ہے، ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں، ایڈز کے خدائی عذاب سے بچنے کے لیے ہر ملک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کر رہا ہے، عالمی سمیناروں کا انعقاد عمل میں لایاجارہاہے، لیکن اس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، جب تک سماج سے فحاشی، برہنگی، اور جنسی بے راہ روی کا خاتمہ نہ کیا جائے صفائی و ستھرائی اور نظافت کا خیال نہ رکھا جائے، اور مندرجہ بالا تحریر میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک ایڈز جیسی خطرناک اور بھیانک بیماری سے نجات ممکن نہیں ہے۔ نبوی تعلیمات کے نفاذ سے ہی انسانیت اس عذاب عظیم سے چھٹکارا پاسکتی ہے۔
مذکورہ بالا وضاحتوں سے یہ بات صاف طور پر واضح ہوگئی کہ ایڈز یک جان لیوا مرض ہے، لہٰذا اس سے بچنے کی ہر ممکن تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اخیر میں تمام لوگوں کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ تمام کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے اور اس خطرناک اور جان لیوا بیماری سے سب کو محفوظ رکھے۔ آمین