اپنے وطن کی سرزمین
قسط 1
✏ فضیل احمد ناصری
*مولانا غفران ساجد صاحب کی پیش بندیاں*
برادرم مولانا غفران ساجد صاحب میرے قدیم ترین دوست ہیں، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں دو تین سالہ رفاقت رہی، وہ مجھ سے ایک سال بعد فارغ ہوے، ان کا گاؤں میرے گاؤں سے بے حد قریب ہے، بمشکل تین کلومیٹر کے فاصلے پر۔ طالب علمی کے بعد بھی برقی اور شفاہی ملاقاتوں کی کوئی نہ کوئی تقریب بفضلہ تعالیٰ بن ہی آتی ہے۔ ڈھائی ماہ قبل ان کا فون آیا کہ نومبر کے مہینے میں مدرسہ چشمہ فیض ململ میں ایک مسابقے میں آپ کو شرکت کرنا ہے، حتمی تاریخیں طے پاتے ہی میں آپ کو اطلاع دے دوں گا، چناں چہ کچھ ہی دنوں کے بعد انہوں نے 14، 15 کی تاریخیں طے ہونے کی اطلاع دی اور اس محبت آمیز گزارش کے ساتھ کہ کوئی حیلہ حوالہ نہیں چلے گا، میں نے سالانہ تعطیلات پر مشتمل جامعہ کی فہرست دیکھی تو شش ماہی امتحانات ایک ہفتہ بعد پڑ رہے تھے، میں نے بے تکلف ہامی بھرلی۔
*مسابقے میں شرکت کے لیے دیوبند سے روانگی*
دن گزرتے رہے اور وقت کا رخش سرپٹ دوڑتا رہا، ایک دن مولانا کا پھر فون آیا،علیک سلیک۔ خیر خیریت۔ پھر باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ اگرچہ شفاہی دعوت آپ کو بہت پہلے مل چکی ہے، مگر مولانا فاتح اقبال ندوی صاحب باقاعدہ دعوت نامہ لے کر آپ کے پاس پہونچ رہے ہیں، کل صبح کے اوقات میں کسی وقت آپ سے ملیں گے۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ چناں چہ وہ آے، دعوت نامہ پیش کیا، تفصیلات بتائیں اور پھر روانہ ہو گئے۔
اجلاس کے ایام قریب آ ہی گئے تھے کہ ہمارے جامعہ میں نئے اعلامیے کے مطابق شش ماہی امتحانات کو مقدم کر دیا گیا، دورانِ امتحان نگرانی کے پیشِ نظر سفر ممکن نہیں ہے، مولانا غفران ساجد صاحب کے فون آتے رہے، میں نے کہا کہ شرکت کا امکان اندھیرے میں چلا گیا ہے، امتحانات اور جلسے کی تاریخیں ٹکرا گئی ہیں، تاہم شرکت کی کوشش اپنی طرف سے جاری رہے گی، میں نے درخواست لکھی جو منظور ہوئی، دریں اثنا ٹکٹ بھی بن چکا تھا، تاریخِ سفر آئی تو حسبِ وعدہ 13 ویں نومبر کو دیوبند سے نکلا۔ غازی آباد سے چند میل کا فاصلہ رہا ہوگا کہ گھریلو ذرائعِ ابلاغ {سوشل میڈیا} پر دارالعلوم وقف کے صدرالمدرسین حضرت مولانا اسلم قاسمی صاحب کے انتقال کی خبر تیزی سے گردش کرتی دکھائی دی۔ سوچا کہ واپس ہو جاؤں، پھر خیال آیا کہ ڈھائی ماہ پہلے کی دی ہوئی زبان واپس لینا مناسب نہیں۔ استرجاع کیا اور آگے بڑھا۔ ٹرین قدیم دہلی جا رہی تھی اور مجھے نئی دہلی پہونچنا تھا۔ دو تین احباب اور بھی ساتھ تھے۔ مشورہ ہوا کہ غازی آباد اتر کر نئی دہلی کے لیے نئی گاڑی لی جاے، چناں چہ یہی ہوا۔ غازی آباد سے دہلی پہونچتے پہونچتے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ بہار کی ٹرین کا وقت سوا پانچ بجے تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک آدھ گھنٹے کا وقت نبی کریم میں لگا لیا جاے۔ نبی کریم پہونچا۔ یہاں میرے ایک دوست مولانا عمر فرید چشتی رہتے ہیں۔ ان سے ملا۔ یہ درجہ حفظ سے عربی دوم تک میرے رفیقِ درس رہے۔ بلا کے ذہین۔ درجہ حفظ میں کئی امتحانات سے پہلی پوزیشن پر یہی قابض تھے۔ میں پہونچا تو ششماہی میں گرچہ وہی نمایاں ترین رہے، مگر سالانہ میں بازی برابری پر ختم ہوئی۔ پہلی پوزیشن پر انہوں نے قبضہ جمایا تو میں نے بھی اسی مقام پر دھاوا بولا۔ بڑے خوش اخلاق اور متواضع۔ بے تکلف اور قیدِ احترام سے آزاد۔ بڑا دل لگا۔ ساڑھے چار بجے عصر پڑھ کر واپس نکلا اور اسٹیشن پہونچ گیا۔
*مولانا وقار الدین لطیفی ندوی کی معیت میں سفر*
پلیٹ فارم پر پہونچا تو گاڑی لگی ہوئی تھی۔ یہ راجدھانی تھی۔ دہلی سے پٹنہ۔ وقت بھی تقریباﹰ ہو چلا تھا۔ میں اپنی مطلوبہ نشست پر پہونچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک چالیس بیالیس سالہ مولانا پہلے سے ہی تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے میرا نام پوچھا۔ پھر اپنا بتایا۔ مجھے معلوم تھا کہ سفر ان کے ساتھ ہی ہوگا۔ میں نے سامان رکھا۔ بیٹھا اور باتیں ہونے لگیں۔ مولانا کا نام پہلے بھی بارہا سن چکا تھا، مگر ان کے اخلاق و عادات سے آشنا نہیں تھا۔ مولانا غفران ساجد صاحب نے سفر سے ایک دو روز پیش تر ان کے احوال بتا دیے تھے۔ ان سے باتیں ہوئیں تو جیسا مولانا نے بتایا تھا، ویسا ہی پایا۔ بے حد کھلے ہوے۔ ظریف و نظیف۔ تکلفات سے پاک۔ رنج و غم سے آزاد۔ ادائیں دلبرانہ۔ نوائیں بلبلانہ۔ یہ کوئی اور نہیں، بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آفس سکریٹری تھے۔ فاضلِ ندوہ۔ میانہ قد۔ ندوی لباس۔ بیضوی چہرہ۔ سر کے بال بیشتر سفید۔ داڑھی کی سفیدی بھی سیاہی کو مات دیتی ہوئی۔ سفر شروع ہوا۔ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلد گھل جائیں گے۔ پتہ چلا کہ بہار ہی سے تعلق ہے۔ وطن کھگڑیا ہے۔ زبان بھی بہاریت سے لبریز۔ کہنے لگے کہ اپنے ہم وطن سے مل کر اسی زبان میں بات کرنا پسند کرتا ہوں۔ اپنی زبان بڑی شیریں ہے۔ اس میں رچاؤ ہے۔ پیار ہے۔ اخلاص ہے۔ میں بھی تکلف بر طرف ہو چکا تھا۔ ان کی بہاری زبان سے لطف اندوز ہوتا رہا، بلکہ سچ کہیے کہ آزاد ہو کر میں نے بھی اسی زبان کو ذریعہ اظہار بنا لیا تھا۔ واقعی بہاری بول چال کی بات ہی کچھ اور ہے۔ بڑا مزہ آیا۔ سفر حرف و حکایات میں لمحوں میں طے ہو گیا۔ گاڑی صبح چھ بجے پٹنہ پہونچ گئی۔
*امارتِ شرعیہ پھلواری شریف میں*
اسٹیشن سے باہر نکلے تو میزبان چار پہیے لے کر تیار کھڑے تھے۔ ملاقات ہوئی۔ خیال ہوا کہ وطن کی چاے پی کر تھکاوٹ اتاری جاے۔ چاے پی گئی۔ میزبان نے بتایا کہ پٹنہ ہوائی اڈے سے ایک مہمان کو لینا ہے۔ وہ بھی اجلاس کے لیے دہلی سے آ رہے ہیں۔ انہیں بھی اسی گاڑی سے چلنا ہے۔ جہاز آٹھ بجے فروکش ہوگا۔ مولانا ندوی نے مجھ سے کہا کہ اب دو گھنٹے کہاں لگائیں? میں نے کہا کہ امارت چلتے ہیں۔ حضرت مفتی ثناء الہدیٰ صاحب ودیگر سے ملاقات ہو جاے گی۔ اس راے سے وہ بڑے خوش ہوے۔ مفتی صاحب کو فون لگایا۔ پتہ چلا کہ وہ یہیں تشریف رکھتے ہیں۔ ہم لوگ چلے۔ چلتے رہے اور بیس منٹ میں امارت کی فلک بوس عمارتیں ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔
*حضرت مفتی ثناء الہدیٰ و دیگر سے ملاقات*
امارت کے مہمان خانے میں داخل ہوے تو دیکھا کہ مفتی صاحب دو تین علما کے ساتھ موجود ہیں۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ بڑے ہشاش بشاش۔ گرم جوشی سے ملے۔ مفتی صاحب ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل۔ اپنے وقت کے نمایاں ترین طلبہ میں۔ بسیارنویس۔ زود نویسی اور خوب نویسی میں ضرب المثل۔ کئی درجن کتابوں کے مصنف۔ ان کی سوانحِ حیات بھی کسی عاشق نے لکھ دی ہے۔ اب تو ان پر تخصص کا طویل مقالہ بھی لکھا جا رہا ہے۔ روزنامہ انقلاب کے مستقل مضمون نگار۔ کئی برسوں سے امارت شرعیہ کے نائب ناظم ہیں اور ہفت روزہ نقیب کے کرتا دھرتا۔
میں اس قابل تو ہرگز نہیں کہ مجھ سے محبت کی جاے، مگر مفتی صاحب تعارف کے بعد سے ہی ہمیشہ مہربان رہتے ہیں۔ وجہ ایک خاندانی نسبت ہے۔ وہ میرے عمِ محترم حضرت مولانا حسین احمد ناصری زیدمجدہم کے تربیت یافتہ ہیں، بلکہ منہ بولے بیٹے بھی۔ ان کے بچپن کے چند سال میری دادھیال میں بھی گزرے ہیں۔ اب تو خیر یہ تعلق رشتے داری میں بھی بدل چکا ہے۔ ان کی صاحب زادی میرے پھوپھیرے بھائی کے نکاح میں ہے۔
مختلف سلگتے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ہم رخصت ہونے لگے تو اپنی تازہ ترین کتاب "یادوں کے چراغ”ہدیۃً پیش کی۔ امارت میں ہی میرے ایک پرانے دوست کا حال ہی میں تقرر ہوا تھا۔ انہیں میری آمد کی اطلاع دی گئی تو وہ بھی آگئے۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ پھر مختصر تبادلہ خیال۔ یہ مولانا شبلی قاسمی تھے۔ امارتِ شرعیہ کے نئے نائب ناظم۔ دارالعلوم حسینیہ پروہی پتونا (مدھوبنی) میں جن دنوں حفظِ قرآن کا متعلم تھا، یہ اسی ادارے کے درجاتِ عربیہ میں متدرس تھے۔ نہایت متحرک۔ چاق و چوبند۔ بوٹی بوٹی سے تیزی ابھرتی ہوئی۔
*پٹنہ ہوائی اڈے پر*
سب کو سلامِ وداع کیا۔ سیدھے ایئرپورٹ کی راہ لی۔ پندرہ بیس منٹ میں ہم لوگ وہاں موجود تھے۔ پتہ چلا کہ اسی اجلاس میں شرکت کے لیے مدرسہ اشاعتِ اسلام اکل کوا کے مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی زیدمجدہم بھی اسی جہاز سے آ رہے ہیں، جس سے ہمارے اگلے رفیقِ سفر کو آنا ہے۔ جہاز کافی مؤخر تھا۔ طویل انتظار کی اذیت سے ہم سبھوں کو گزرنا پڑا۔ پٹنہ کالج کے پروفیسر مولانا شکیل قاسمی بھی اجلاس کے لیے تشریف لا چکے تھے۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ دو گھنٹے کے بعد جہاز اترا۔رفقا کے ہمراہ مولانا وستانوی صاحب باہر آے۔ ملاقات ہوئی۔ ان کی گاڑی دوسری تھی۔ گاڑی پر بیٹھے اور چل دیے۔ دیکھا کہ ہمارے منتظَر مہمان ندارد ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ ان کا جہاز ہی چھوٹ گیا تھا۔ اب کیا کرتے۔ ہم نے بھی سفر کا اگلا مرحلہ شروع کر دیا۔
*فقیہ الاسلام حضرت قاضی مجاھد الاسلامؒ کے مزار پر*
دیر تو ہو ہی چکی تھی۔ مولانا ندوی کی خواہش تھی کہ فقیہ الاسلام قاضی مجاھدالاسلام صاحبؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہوے آگے بڑھا جاے۔ وہ میرے والد حضرت مولانا علاءالدین ندویؒ کے رفیقِ درس اور بے تکلف دوست تھے۔ مجھ پر بھی بڑے شفیق و کرم گستر۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آفس میں انہوں نے ہی میرا تقرر کیا تھا۔ بدقسمتی سے ان کے مزار پر آج تک نہ جا سکا ہوں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میری بھی یہی خواہش ہے۔ گاڑی دربھنگہ ہو کر گزرے گی۔ چلے چلتے ہیں۔ گاڑی شیطان کی رفتار سے دوڑتی رہی۔راہ میں ہی قاضی مرحومؒ کے برادرِ نسبتی جناب صفی اختر صاحب کو فون کیا گیا۔ وہ گھر پر موجود تھے۔ ہمارے ارادے سے بہت مسرور۔ صفی صاحب قاضی مرحوم کے سب سے چھوٹے برادرِ نسبتی ہیں۔ انہیں کے پروردہ اور سایہ عاطفت میں بسر کیے ہوے۔ دہلی میں آل انڈیا ملی کونسل کی آفس کے ذمے دار ہیں۔ لکھنے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں۔ سنجیدہ اور خلیق۔ شرافت و نجابت کے گلِ رعنا۔ دربھنگہ شہر کے مہدولی میں ان کا گھر ہے۔ یہ رشتے میں میرے چچا بھی ہیں۔
ہم مسلسل جادہ پیما رہے۔ راستے میں ایک عجیب موڑ آیا۔ گاڑی کو دیکھا کہ پیہم ٹیڑھی دوڑ رہی ہے۔ اپنا توازن سنبھالنا سب کے لیے دشوار۔ مولانا ندوی کی حسِ ظرافت حسبِ عادت پھر پھڑک اٹھی۔ کہنے لگے کہ مولانا! یہ جلیبیا موڑ ہے۔ جلیبی کی طرح گول اور الجھا ہوا۔ مجھے بڑی ہنسی آئی۔ خدا خدا کر کے دربھنگہ پہونچے۔ مہدولی میں متعدد بار جا چکا تھا، مگر اب دیکھا تو راستہ بھولا ہوا۔ ڈرائیور بھی مہدولی ندیدہ تھا۔ نتیجۃً پاس کی منزل بھی بعید ثابت ہوئی اور راستہ شیطان کی آنت کی طرح پرپیچ۔ خیر لشتم پشتم ٹھکانے پر پہونچا تو دیکھا کہ صفی چچا استقبال میں کھڑے ہیں۔ پرتپاک ملاقات ہوئی۔ قاضی صاحبؒ کا مزار گھر کے احاطے میں بالکل سامنے تھا۔ ہم نے ان کے لیے کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا۔ ندوی صاحب زیادہ جذباتی ہو رہے تھے۔ دیر تک کتبے اور مزار کو دیکھتے رہے۔ عجیب حال ان پر طاری تھا۔ماضی کی یاد میں گم سم۔ پھر اٹھے۔ دسترخوان لگ چکا تھا۔ کھانا کھایا۔ قیلولہ کیا اور تھوڑی دیر بعد واپسی کی اجازت چاہی۔ چچا نے بڑی مشکل سے اجازت دی اور نم آنکھوں سے ہمیں رخصت کیا۔
[email protected]
8881347125