اپنے وطن کی سر زمیں
(قسط2)
فضیل احمد ناصری
*ململ کو روانگی*
مہدولی سے نکلے تو حضرت قاضی مرحوم کی شخصیت دیر تک ذہن میں گردش کرتی رہی۔ مولانا وقار ندوی صاحب کی طبیعت خوشی و غمی کا سنگم تھی۔ خوشی اس بات کی کہ انہیں انتقال کے بعد قاضی صاحب کے مقبرے پر حاضری کی سعادت پہلی بار نصیب ہوئی تھی۔ غمی اس پر کہ پندرہ برسوں کا داغِ فرقت صرف چند لمحوں کے لیے ہی مٹایا جا سکا۔ ندوی صاحب کو اس راہ پر لگانے والے قاضی صاحب ہی تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آفس میں وہی لے کر آے۔ ندوی صاحب نے اپنے تعلقات کی پرتیں ہٹانی شروع کیں اور ان کی حیات کے پوشیدہ اوراق الٹتے پلٹتے رہے۔ ادھر میرا دل بھی بوجھل۔ قاضی صاحب میرے لیے کیا نہ تھے۔ میرے دادا تلمیذِ کشمیری مولانا محمود احمد ناصریؒ کے شاگردِ رشید۔ میرے والد کے رشتے کے چچا۔ ایک رشتے سے بہنوئی بھی۔ میں انہیں دادا کہتا۔ ان سے میری باقاعدہ ملاقات اسی مہدولی میں ان کے قائم کردہ کالج میں ہوئی تھی۔ میں اس وقت دارالعلوم میں مشکوۃ پڑھ رہا تھا۔ میرے بڑے بہنوئی جناب سہیل احمد ناصری صاحب کی نانیہال مہدولی میں ہی ہے۔ قاضی صاحبؒ کے خسر جناب منظر صاحبؒ ان کے چچیرے ماموں تھے۔ وہ وہاں جاتے ہی رہتے تھے۔ ایک بار مجھے بھی لے گئے۔ منظر صاحبؒ سے بھی ملاقات ہوئی۔ قاضی صاحب بھی یہیں مقیم تھے۔ جس وقت ہم پہونچے، وہ اکیلے تھے۔ میرے بہنوئی نے علیک سلیک کے بعد میرا تعارف کراتے ہوے کہا کہ یہ میرا سالا ہے۔ مولانا جمیل احمد ناصری کا بیٹا۔ قاضی صاحبؒ بھڑک گئے۔ کہنے لگے: تم نے سالا سے کیوں تعارف کرایا? سیدھے کہتے کہ یہ آپ کا پوتا ہے۔ مصافحہ کے ساتھ معانقہ ہوا۔ باتیں ہوئیں۔ ان سے مل کر میں خود کو بڑا سعید سمجھ رہا تھا۔ آج انہیں کے مزار سے ہو کر آیا ہوں تو دل بڑا اداس ہے۔ کتنا بڑا انسان موت کے چادر اوڑھے پڑا ہے۔ بہار کی سرزمین سے ہزاروں لالہ و گل اٹھے۔ لاتعداد شگوفے کھلے، مگر قاضی صاحبؒ اس دور میں اپنی نظیر آپ تھے۔ فقہی بصیرت، علمی تعمق، مجتہدانہ شان اور قلم و خطابت کا ایسا حسین امتزاج یہاں عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ اب تو دور دور تک سناٹا ہے۔
گاڑی پیچ و تاب کھاتے بھاگتی رہی۔ مغرب کا وقت ہونے جا رہا تھا۔ اب ہم ململ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ قاضی صاحبؒ کے ذکرِ خیر کے بعد دوسرے موضوعات چل رہے تھے۔ اچانک دیکھا کہ راستے سے دھول اڑنے لگی۔ دہلی کی فضا کا رنگ۔ میں نے شیشے چڑھا لیے۔ ندوی صاحب حسبِ سابق پرمزاح لہجے میں بول پڑے: مولانا! یہ دیسی پاؤڈر ہے۔ اسے لگنے دیجیے۔ اپنے وطن کا غبار چہرے کو مس کرتا ہے تو کرنے دیجیے۔ میں نے شیشے اتاردیے۔ ان کی گفتگو کے بعد اس دھول سے مجھے بھی محبت ہونے لگی تھی۔
*ململ:ایک نظر میں*
کچھ منٹوں کے بعد ہم ململ میں تھے۔ میں نے آگے دیکھا تو ایک کار جا رہی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ مولانا وستانوی صاحب کی کار تھی۔ طلبہ اور عوام دو رویہ کھڑے "خادم القرآن: زندہ باد” کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے بے چین و بے قرار۔ ان کی گاڑی چیونٹی کی چال چل رہی تھی۔ نتیجتاً ہم بھی پھنسے ہوے۔ خدا خدا کر کے قیام گاہ پہونچے۔ دو چار منٹ آرام کیا۔ نماز ادا کی اور محبین سے ملاقات کا دور شروع۔
بہت سے گاؤں کا تعارف وہاں کے قائم مدارس سے ہوا کرتا ہے۔ ململ کا نام میری سماعت سے اول اول مدرسہ چشمہ فیض کی وجہ سے ہی ٹکرایا۔ یہ ایک کثیر آبادی والا مسلم گاؤں ہے۔ کم و بیش دو ہزار گھروں پر مشتمل۔ سکّان چھ ہزار سے زیادہ۔ سارے کے سارے مسلمان۔ علم و عرفان سے ہر گھر آشنا۔ سب کے سب دیوبندی المسلک۔ حفاظ اور علما بڑی تعداد میں۔ بعض علما بین الاقوامی شہرت یافتہ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مؤقر استاذ، ادیبِ شہیر حضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی زیدمجدہم یہیں کی وطنیت رکھتے ہیں۔جماعتِ اسلامی بہار اکائی کے سابق امیر جناب قمرالہدیٰ صاحب کا وطن بھی یہی ہے۔ ان کے علاوہ کئی مستند فضلا ملک و بیرونِ ملک میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ حافظات و عالمات کی بھی بہار در بہار۔ مبالغۃً کہا جاتا ہے کہ یہاں کی مرغیاں بھی پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔ شعر و سخن سے وابستہ شخصیات بھی یہاں ہر دور میں موجود رہیں۔ قابلِ رشک آبادی ہے۔ بڑی قدیم تاریخ کا حامل۔ پانچ سو برس پہلے ململی خان نے اس گاؤں کے ایک محلے میں قیام کیا۔ نتیجتاً پورا گاؤں ہی ململ کہلا گیا۔ یوپی کے جون پور سے ایک بندہ خدا کا اس گاؤں سے گزر ہوا۔ یہ 1863 تھا۔ اس نے یہاں چشمہ فیض کے نام سے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی۔ بندہ خدا کا نام مولانا عبدالباری سلفی مچھلی شہری تھا۔ ان کا یہ نام اور کام اتنا چلا کہ انہیں کے دور میں اس کا شہرہ دور دور تک پہونچا۔ اب تو گاؤں کا شاید ہی کوئی بندہ ہو جو اس کا فیض یافتہ نہ ہو۔ علاقے اور صوبے سے گزر کر ملک بھر میں اس کے جاننے اور فیض پانے والوں کی کمی نہیں۔
*اہلِ ململ کی مہماں نوازی*
ہم جوں ہی اپنی قیام گاہ میں پہونچے، رضا کاروں کی ایک جماعت ٹوٹ پڑی۔ ہر شخص مہماں نوازی میں سبقت لے جانے کی کوشش میں۔ مولانا وقار ندوی صاحب کے قدیم شناسا زیادہ تھے، اس لیے جو آتا، اولاً انہیں سے لپٹتا۔ محبت میں میرے ساتھ بھی کوئی کمی نہیں۔ ہر ایک کے لب مسکراہٹوں سے سجے ہوے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت میں ان کا آنا جانے کی تمہید اور جانا آنے کا ابتدائیہ۔ ان میں سے اکثر ندوی تھے۔ جناب خطیب ندوی صاحب کا مسکراتا چہرہ ابھی تک تازہ ہے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ خوشی سے جھومے جا رہے ہیں۔ یہ نجیب الحسن ندوی صاحب ہیں۔ مہمانوں کی خاطر داری میں پیش پیش۔ سنجیدگی کے ساتھ ہجومِ مسرت بھی پیشانی کی لکیروں سے نمایاں۔ یہ جناب نجم الہدیٰ ثانی صاحب ہیں۔ ان کا نام بہت سنا تھا۔ سوشل میڈیا پر ان کے افکار و خیالات سے تقریباﹰ روز ہی مستفید۔ آج وہ ملے اور انہوں نے تعارف کرایا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ بھی اظہارِ خوشی میں تیز رَو۔ مولانا فاتح اقبال ندوی بھی پرسشِ احوال کو پہونچ چکے تھے۔ جوانی سے پلّہ جھاڑنے کے قریب۔ تبسم بر لبِ اوست کا مجسمہ۔ اجلاس انہیں کے والد کے مدرسے کا تھا۔ خود بھی جامعۃ فاطمۃ الزھراء کے مدیرِ محترم ہیں۔ نگاہیں ہماری طرف تھیں اور ذہن انتظامات میں الجھا ہوا۔ کس کس کا نام لیجیے۔ یہاں کا ہر ذرہ خلیق اور ہر تنکا عزت افزائی میں مگن تھا۔
*ایک قلندر سے ملاقات*
میزبانوں کی انہیں اداؤں کے بیچ اسی کمرے میں ایک بوڑھا شخص آتا ہوا نظر آیا۔ پست قامت۔ مرقعِ دہقانیت۔ عجیب و غریب ہیئت۔ میں نے ہلکا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو قاضی القضاۃ حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری ہیں۔ وہ تخت پر پاؤں لٹکاے ابھی بیٹھے ہی تھے کہ میں ان سے ملاقات کو لپکا۔ میں نے جوں ہی اپنا نام بتایا، بڑھ کر مصافحہ کیا۔ گلے بھی لگایا، پھر کہنے لگے: اگر آپ کو میری ایک بات اور معلوم ہو جاے تو آپ کی انسیت مزید بڑھ جاے گی۔ میں نے کہا: حضرت! مجھے معلوم ہے۔ آپ میرے والد کے کئی سال رفیقِ درس رہے۔ آپ میرے دادا کے شاگرد ہیں۔ وہ مسکرانے لگے اور اپنا وہ زمانہ یاد کرنے لگے۔ مسابقہ کے سرپرست یہی تھے۔
میں نے پورا ہندوستان دیکھ لیا۔ مختلف علاقوں میں گھوما۔ اپنے ہوش کے دور سے تقریباﹰ ہر نامور عالم کو دیکھا، مگر ایسی علمی شخصیت میری نظر سے نہیں گزری۔ عمر 85 کے آس پاس ہے، مگر استحضار بے پناہ۔ فقہی عبارتیں کثرت سے زبان پر۔ فقاہت میں یدِ طولیٰ۔آیات کا برمحل استعمال۔ احادیث پر گہری نظر۔ خطابت میں علم ہی علم۔ کوئی بات زائد نہیں۔ تقریریں تکرار سے پاک۔ گویا انگ انگ علوم و معارف کی جوے سلسبیل۔ مگر بایں ہمہ سادگی کا عظیم پیکر۔ سر پر دوپلی ٹوپی ۔ آڑی اور ٹیڑھی۔ پوشاک معمولی۔ نیل زدہ، مگر پریس ندیدہ۔ پاجامہ بھی اسی رنگ کا۔ تکلفات و تصنعات انہیں چھو کر نہیں گزرے۔ کبر و ریا سے منزہ۔ علم کا ایسا پہاڑ اور سادگی کا پیکر میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔ جی چاہتا تھا کہ جان وار دوں۔ کئی دن ہو چکے، مگر ان کی شخصیت کا یہ تاثر ابھی بھی جوان ہے۔ وہ چاہتے تو پورا عالم ان کے زیرِ نگیں ہوتا، لیکن یہ درویشِ خدا مست دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ عالمِ گندم و جو کی شہنائیوں سے نا آشنا۔ دنیا کی رنگینیوں سے بے خبر۔ ایک زمانے سے بہار کے قاضی ہیں۔ ان کی خدمات صوبہ بھر میں جاری۔ اب تو ملک بھر میں ان کا بلاوا ہونے لگا ہے۔ اگر یہ بندہ بہار سے باہر مقیم ہوتا تو اس کی خدمات کے اعتراف میں کیا کیا نہ ہوا ہوتا، مگر یہ بہار ہے۔ ظرف کا بہت بڑا۔ حوصلے کا دہ در دہ۔ اعترافِ عظمت کے لیے یہاں زبانیں بمشکل ہی کھلتی ہیں۔ اللہ اکبر!
[email protected]
8881347125