تازہ ترین، سلسلہ 89
فضیل احمد ناصری
مشکل میں تھاضرور،پریشان تو نہ تھا
بارود کے پہاڑ پہ انسان تو نہ تھا
تقلیدِ کفر لے اڑی دینی حمیتیں
دل ورنہ عشقِ دین سے ویران تو نہ تھا
ہوتے رہے ہیں سانحے ماضی میں بھی،مگر
امت کا کوئی فرد بھی نادان تو نہ تھا
ہم نے تو خود گلے سے لگایا شکست کو
یہ کام ان کے واسطے آسان تو نہ تھا
کچھ سرپھروں کےمکر سےرت ہی بدل گئی
ورنہ یہ اپنا ملک نمک دان تو نہ تھا
شیشے کا رنگ فق ہے، ترا رنگ دیکھ کر
آئینہ کائنات کا حیران تو نہ تھا
اڑتی ہوئی یہ خاک نظر آ رہی ہے کیوں
اپنا وطن کبھی بھی بیابان تو نہ تھا
رو کر ہی گرچہ ہم نے گزاری شبِ حیات
کاندھوں پہ اپنے لاشۂ ارمان تو نہ تھا
بخشے مرے گناہ خدائے قدیر نے
بخشش کا ورنہ پاس میں سامان تو نہ تھا