تازہ بہ تازہ، سلسلہ 25
فضیل احمد ناصری
میری ہر بات ہی کانٹوں سی چبھےگی انکو
میں کہوں گا تو بہت چوٹ لگے گی ان کو
ان امیروں کو مرے گھر کا پتہ مت دینا
مری محفل کسی صورت نہ جمے گی ان کو
کامیابی مری ان کو نہ بتانا ہرگز
دل جلے ہیں، مری یہ چیز کَھلے گی انکو
دل ہے فریاد سے معمور، مگر لب چپ ہیں
روشِ وقت ہی خود ٹھوکریں دیگی ان کو
ان مشینوں نے بھرم ان کا بچا رکھا ہے
ورنہ تا حشر حکومت نہ ملے گی ان کو
آج مسرور سہی، کل انہیں رونا ہوگا
ان کی ہر بات پریشان کرے گی ان کو
شعبدے شیخ کے کام آئیں گے یارو کب تک
دیکھنا قوم ہی پیروں سے مَلے گی ان کو
وقت اک روز ستم گر کو سزائیں دے گا
ہم بھلے چپ رہیں، دنیا تو کہے گی ان کو
ان کی تائید کرو، چھوڑ دو ان کا پیچھا
گردشِ چرخ ہی مُردوں میں گنے گی انکو