Home خاص کالم اوباما کی نصیحت کا مودی پر اثر ہوا؟

اوباما کی نصیحت کا مودی پر اثر ہوا؟

by قندیل

اوباما کی نصیحت کا مودی پر اثر ہوا؟
مولانا اسرار الحق قاسمی
امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے گزشتہ دنوں راجدھانی دہلی میں ہندوستان ٹائمز لیڈرشپ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کی وطن سے یکجہتی اور محبت کا توصیفی کلمات میں بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں اور ملک کے حکمرانوں کو ملک کی مسلم آبادی کی قدر و منزلت کرنے اور اسے پروان چڑھانے کے جو مخلصانہ مشورے دئے ہیں وہ کئی زاویہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کثیر مسلم آبادی ہے جو وطن سے ہم آہنگ اور مربوط بھی ہے اور خود کو ہندوستانی تصور کرتی ہے۔ انہوں نے اس حقیقت یعنی ہندوستانی مسلمانوں کی وطن سے یکجہتی کو اس ملک کا امتیازی نشان بتاتے ہوئے بتایا کہ دیگر ملکوں میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا(یعنی اقلتیں خود کو اپنے ملک سے مکمل طور پرہم آہنگ نہیں کر پاتیں)۔
اس مختصر تمہید کے بعدسابق امریکی صدر نے،جو یقیناًہندوستان میں،خاص طور پر 2014 میں وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت قائم ہونے کے بعدسے، مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے کمتر،سوتیلے، غیر منصفانہ، متعصبانہ اور پُر تشددسلوک سے آگاہ ہیں،موجودہ ہندوستانی حکمرانوں کو تاکید کی وہ مسلمانوں کی حب الوطنی کے لئیاُنہیں نہ صرف عزیز جانیں بلکہ انہیں پروان چڑھائیں، پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرائیں۔انہوں نے یہ بات بھی عیاں کردی کہ جب امریکی صدر کی حیثیت سے انہوں نے 2015میں ہندوستان کی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی تھی تب وزیر اعظم مودی سے بند کمرے میں گفتگو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ملک کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونا چاہئے اور ملک کے تمام شہریوں کو انکے مذہبی اعتقاد پر عمل کرنے کے حق کی حفاظت ہونی چاہئے۔ وزیر اعظم مودی نے مذہبی رواداری کے انکے پیغام پر کیا ردعمل ظاہر کیا تھا، اس سوال کا جواب دینے سے انہوں نے گریز کیا اور کہا کہ ذاتی گفتگو کو افشا کرنا انکا مقصد نہیں ہے۔ 
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کسی شک و شبہ سے ماورا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو اسے ان کا احسان بھی نہیں کہا سکتا ۔ مسلمان ہوں یا کوئی اور، سب کو اپنے ملک سے محبت اور وفاداری کرنی ہی چاہئے۔ مسلمانوں کے لئے تویہ انکا مذہبی فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کریں۔لیکن مسلمانوں کو اس وقت شدید ذہنی اذیت و کرب سے گزرنا پڑتا ہے جب ملک کا ایک مخصوص گروہ، جواس وقت ملک کے اقتدار پر قابض ہے، مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتا رہتا ہے۔ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں مسلمانوں کی عظیم قربانیوں کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے ، اور ہر لمحہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک کا دو ئم درجے کا شہری بنا دیا جائے، ان سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے، انکی مذہبی رسوم و روایات پر پابندی لگا دی جائے، انہیں ہندو رسوم اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے، ان کی بیٹیوں کو محبت اور شادی کے جال میں پھنسا کر ہندو بنا دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
اس کی انتہا تو تب ہو جاتی ہے جب کشمیر کے بزرگ قائد فاروق عبداللہ، جو دو مرتبہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلی ہی نہیں بلکہ ملک کی مرکزی حکومت میں بھی وزیر رہ چکے ہیں، ان سے ایک ٹیلی ویزن چینل کا سینئر اینکراپنے لائیو پروگرام میںیہ احمقانہ سوال کرنے سے تامل نہیں کرتا ہے کہ آپ انڈین تو ہیں نا؟ اس ذہنیت پر ڈاکٹر عبداللہ کی شدید برہمی لازمی تھی اور انہوں نے انکی وطنیت پر شک کرنے والے کی بولتی بند کردی لیکن اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کے حوالے سے جو شکوک و شبہات جان بوجھ کر پیدا کر دئے گئے ہیں، اس کے اثرات کہاں کہاں تک پیوست ہو چکے ہیں۔تاہم سیاسی مفادات کی بنیاد پر کئے گئے اس گمراہ لُن پروپیگنڈے کے باوجودیہ امر انتہائی خوش کُن ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکو ں اور قوموں میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور جیسا کہ سابق امریکی صدر کی بے لاگ گفتگو سے عیاں ہوا کہ پوری دنیا ہندوستانی مسلمانوں کو اس وجہ سے بنظر تحسین دیکھتی ہے کہ تمام مخالف حالات کے باوجود انکے دلوں میں وطن کی محبت اسی طرح جاگزیں ہے جو انکادین اُن سے تقاضہ کرتا ہے۔ 
تاہم یہ واقعہ ہمیں افسردہ اور مغموم کرتا ہے کہ سابق امریکی صدر کو ہندوستان اور ہندوستانی حکمرانوں کے روبرویہ بیان کرنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان محب وطن ہیں اور ملکی حکمرانوں کو انہیں قدر کی نگاہوں سے دیکھنا چاہئے، انہیں ترقی کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی کی حفاظت ہونی چاہئے۔اگرچہ اوباما کا ہندوستان سے، ہندوستانی مسلمانوں سے ، اورمسلمانوں سے متعلق ہندوستانی حکمرانوں کے رویہ اور طرز عمل سے کوئی براہ راست لینا نہیں ہے اور یہ بھی کہ ان کے ملک میں بھی نسل، زبان، عقیدے وغیرہ کے تعلق سے مسائل کچھ کم نہیں ہیں پھر بھی انہیں ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انہوں نے ہندوستان میں مذہبی رواداری کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے، اورحکومت کو حالات میں بہتری لانے کی نصیحت کی ہے۔اس سے قبل 2015 میں جب وہ امریکی صدر کے طور پر ہندوستا ن کی یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ہندوستان آئے تھے تو انہوں نے ایک اجلاس کے دوران کچھ اسی قسم کی باتیں کی تھیں۔ انہوں نے دستور ہند کی دفعہ 25کا حوالہ دیتے ہوئے، جو ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتی ہے، کہا تھا کہ ہر شخص کوکسی خوف یا امتیاز کے بغیراپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے یا کوئی بھی مذہب اختیار نہ کرنے کی آزادی ہے، اور ہندوستان کامیاب رہے گا اگراسے مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جاتا۔انکی تقریر کا بنیادی پیغام یہی تھا کہ ہندوستان کی رنگا رنگی اور تنوع کا احترام کیا جانا چاہئے۔ 
ا ب زائد از ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اوباما کو اپنا پیغام دہرانے کی ضرورت پڑی ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ مذہبی عدم رواداری کے حوالے سے ملک کے حالات میں بہتری کے بجائے الٹا مزید خرابی آئی ہے۔ گھر واپسی، لو جہاد، گؤ رکشاوغیرہ کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں اور قتل کیاجا رہا ہے، اور گناہگار سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں، حکومت بھی ان کے ذریعہ معاش کو منظم طریقہ سے چھین رہی ہے۔ اس سے ملک کے تمام مسلمانوں میں خوف کی ایک لہر سرایت کر گئی ہے۔امریکہ کے سابق صدر ملک کے اسی گروہ سے کہ رہے ہیں کہ مسلمان محب وطن ہیں جو اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کی وجہ سے انہیں شب روز غدار قرار دیتا رہا ہے اور انہیں ہندوستانی بھی ماننے پر آمادہ نہیں ، بابر کی اولاد کہ کر پکارتا رہتا ہے۔اسی طرح اوبامااسی ٹولہ سے مسلمانوں کی قدر و منزلت کرنے اور انہیں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی بات کر رہے ہیں جو ان کو ملیچھ سمجھتے ہیں اور منہ سے نوالہ تک چھین لینے کی ہمہ وقت سازش کر رہے ہیں۔
جناب حامد انصاری نے نائب صدر کے عہدہ سے سبکدوش ہونے کے فوراً بعد اس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ملک کے مسلمان خود کو ستم گزیدہ محسوس کررہے ہیں۔لیکن جب خود حکمراں ٹولہ ہی مسلمانوں کے بیچ خوف کا سبب ہو تو خواہ اس ملک کے سابق نائب صدر حامد انصاری مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کی بات کہیں یا امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما،ظاہر ہے کہ حالات نہیں بدل سکتے ۔ان کے دانشمندانہ مشاہدات اور مشورے سب رائیگاں جائیں گے۔ (مضمون نگار ممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)

You may also like

Leave a Comment