Home خاص کالم امریکی سفارتخانہ کی یروشلم منتقلی

امریکی سفارتخانہ کی یروشلم منتقلی

by قندیل

امریکہ کو گالی،سعودیہ کےلیے جگالی کیوں؟

میم ضاد فضلی
با لاخر وہی ہوا جس کا اندیشہ دنیا کے تمام امن پسندوں کو ایک برس سے لگاتار ستائے ہوا تھا۔ ماہ جون 2017 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھااوردوٹوک لفظوں میں دنیاکو اپنا جابرانہ فرمان سنایا تھا کہ سبھی ممالک یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیں اور اپنے اپنے سفارتخانے یروشلم میں لے آئیں۔اس اعلان پر امن پسندوں کی رائے یہی تھی کہ امریکہ یروشلم میں اپنا سفارتخانہ ضرور کھولے گا ،اس لیے کہ خلیج میں امن و امان قائم رہے اور دنیا بھر میں امریکہ کی جگ ہنسائی نہ ہو اس کی فکر ڈونلڈ ٹرمپ کو کبھی بھی نہیں رہی ہے؛بلکہ وہ اپنی انتخابی تقاریر میں بھی اسرائیل کو خوش رکھنے کے وعدے کرتا رہاہے اورتھوڑی دیر کیلئے بھی اس نے یہ نہیں سوچا کہ اس کے اس قدم سے اسرائیل کے چاروں جانب آباد مسلم ممالک ناراض ہوجائیں گے اورامریکہ دنیاکی نظروں میں ایک مکروہ ملک کے طورپر متعارف ہوجائے گا ۔سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ ایسا کیوں سوچے گا جب اسے یقین ہے کہ اس نے اپنی چالاکی ،منافقت اور دجل کاری کیجو جال خلیج عرب میں پھیلا رکھے ہیں ،اس میں تمام عرب ممالک کے غاصب حکمراں پھنسے ہوئے ہیں اور جو کوئی بھی اس سے نکلنے کی کوشش کرے گا بے موت مارا جائے گا۔ماضی میں ہماری ناتواں آنکھوں نے شاہ فیصل ،جنرل ضیاء الحق ،مرد آہن صدام حسین اور کرنل قذافی کا حشر دیکھا ہے۔یہ سارے فرمانروا اسی وجہ سے موت کے منہ میں دھکیل دیے گئے کہ انہوں نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت کی تھی۔امریکہ نے خطہ میں شروع سے ہی فریب کا ایسا جال بن دیا تھا کہ کوئی بھی عرب حکمراں ایک دوسرے پر یقین نہ کرسکے اور ہمیشہ ایک دوسرے کو دشمن کی نظروں سے دیکھنے کا عادی بن جائے۔عرب کے بے وقوف اور دولت کے نشے میں چور حکمرانوں کو امریکہ ،اسرائیل اورسعودی عرب نے اپنی منظم و مشترک سازش کے ذریعہ ہمیشہ باہم دست و گریباں رکھا؛تاکہ وہ آپس میں ہی لڑ بھڑ کر اپنی توانائی ضائع کرتے رہیں۔مآل کار امریکہ عربوں کو اتنا بے بس کرچکا ہے کہ اس نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سعودی عرب کو مخاطب کرکے صاف کہہ دیا ہے کہ’’ تم ہمارے بغیر روئے زمین پر ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکوگے‘‘۔سعودی عرب کے ظالم و جابر حکمرانوں کو اس کے امریکی آقا اورنسلی رشتہ دار اسرائیل کی دھمکی قطعی درست لگی اور اسے یقین ہوگیا کہ یہودیوں کی ہم نام نہاد مسلمان اولادیں امریکہ کی آشیرواد کے بغیر روئے زمین پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گے؛لہذا مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ سعودی حکمرانوں کے ابا جان یعنی امریکہ جوکچھ کہہ رہا ہے ،اسے بلا چون وچرا قبول کرلیا جائے۔یہاں راقم الحروف کسی سعودی حکمراں کو یہودی نہیں کہہ رہا ہے؛بلکہ یہ بتارہا ہے کہ سعودی حکومت کے امرا یہودی النسل ہیں ،ان کے اجداد یہودی تھے ،یہ ایک تاریخ ہے،جسے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔جس طرح ہم بیشتر ہندوستانی مسلمانوں کے اجداد نے اپنے سابقہ مذاہب ترک کرکے اسلام قبول کیاتھا۔آج بھی اگر بات ذات پات کی ہوتی ہے تو جاٹ ہندواور مسلمان جاٹ یا پٹیل ہندو اور پٹیل مسلمان ایک ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ٹھیک یہی صورت حال اس وقت خطۂ عرب میں سعودی حکمرانوں کی ہے کہ جب بات اقتدار کی آ گئی ہے تو وہ لوگ مذہب سے آگے بڑھ کر اپنے یہودی رشتہ داروں کے اہداف کوتحفظ فراہم کررہے ہیں۔
بہر حال عرض ہے کہ ابھی دوہفتہ قبل سعودی عرب کے ولی عہد نے ٹرمپ کی بیٹی کی گود میں بیٹھ کر فلسطینیوں کو جو دھمکی دی تھی اور بلاتوقف امریکہ کی شرطوں پر امن معاہدہ کوقبول کرنے پر مجبور کرنے کی ناپاک چال چلی تھی،وہ سب اسی خوف کا نتیجہ تھا ۔ حالیہ امن معاہدے کے ایجنڈے کس نے تیار کیے ہیں، ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ہی یہ بات بتادی تھی کہ اس معاہدہ کو ٹرمپ کی بیٹی ایوانکاٹرمپ ،اس کا یہودی شوہر جیرڈ کوشنرکی ٹیم نے مرتب کیا ہےاورظاہر سی بات ہے کہ اس معاہدہ نامہ میں فلسطین کےلیے کوئی بھی گنجایش باقی نہیں رکھی گئی ہوگی۔
آج جب امریکی صدر اپنے انتخابی وعدے کے مطابق تل ابیب سے سفارتخانہ یروشلم منتقل کررہا ہے، تو ہندوستان کے ایک بڑے طبقے کی نام نہاد ملی تنظیموں میں ضرورت سے زیادہ کھجلی مچ گئی ہے اور اخبارات میں پریس ریلیز کے ذریعہ قیادت کے جوہر دکھائے جانے لگے ہیں۔یہی لوگ کل جب ان کے ’’خود ساختہ خدا‘‘ یعنی محمد بن سلمان نے یہودیوں اور امریکہ کی بات اپنی زبان سے کہی تھی تو کسی بھی مسلم خصوصاً غیرمقلدین اور دیوبندیوں کی کسی تنظیم نے معمولی رد عمل بھی ظاہر نہیں کیا تھا کہ مبادا ان کے ’’خود ساختہ خدا ‘‘ ناراض نہ ہوجائیں اورعربی جبہ و دستار میں ملبوس حرم کے اماموں کو رام لیلا گراؤنڈ ،دارالعلوم دیوبند اور غیر مقلدین حضرات کے جیبی انٹر نیشنل مراکز علمیہ میں بلاکر مسلمانوں کی بھیڑ دکھاکر انہیں اپنی جانب مائل کرنے کا راستہ بند نہ ہوجائے۔ظاہر سی بات ہے اگر یہ تنظیمیں یہود ی النسل محمد بن سلمان کی مخالفت کرتیں تو حرم کے اماموں کو اپنے یہاں بلاکر ناخواندہ مسلمانوں کی بھیڑ دکھانے کا موقع گنوادیتیں۔ حرم مقدس کے ائمہ کی حالت زار یہ ہے کہ وہ سعودی فرمانرواؤں کے حکم پر ٹرمپ کو اپنا امام تسلیم کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے اور یہ سب صرف اپنا عہدۂ امامت محفوظ رکھنے کےلیے ہوتا ہے۔جن ائمہ نے امریکہ کے سامنے جھکنے کے شاہی فرمان کو ٹھکرانے کی جرأت کی، وہ دنیا سے ناپید کردیے گئے۔یہ سعودی حکومت اور حرمین مقدسین کے ائمہ کی ایک تلخ تاریخ ہے ،جسے جھٹلا یا نہیں جاسکتاہے۔اس میں شبہ نہیں کہ کئی ایمان کے جیالے ائمۂ حرم نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا،مگر انہوں نے یہودی النسل سعودی فرمانرواؤں کے حکم کو قبول نہیں کیا اور وقتی تعیش پر عقوبت وصعوبت کو ترجیح دی۔
یہ ایک وسیع ترین اور وقت طلب موضوع ہے ،جس پر آیندہ ضرور لکھا جائے گا۔فی الحال میرا بس اتنا کہنا ہے کہ کل جب ان نام نہاد مسلم قائدوں کے ’’خودساختہ خدا‘‘ فلسطینیوں کو کھری کھوٹی سنا رہے تھے اور اسرائیل کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہوگئے تھے، اس وقت یہ پریس ریلیزیں جاری کیوں نہیں کی گئیں ؟ کس چیز کی لالچ یاکس کے خوف سے ان کی زبانیں گنگ تھیں اور قلم خشک ہوگئے تھے ؟ خلاق دوعالم اور مالک حرم کا خوف دامن گیر تھا یا غاصبین حرم کی عنایات بند ہوجانے کا ڈران پر سوار تھا۔
بہرحال خبر یہ ہے کہ فلسطینیوں اور عالمی برادری کے احتجاج اور مخالفت کے باوجود پیر کو اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ باضابطہ طور پر تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا ہے۔قبل ازیں سفارت خانے کی افتتا حی تقریب میں شرکت کے لیے امریکہ کے وزیرِ خزانہ اسٹیون نوچن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور اس کا شوہر جیئرڈ کوشنرجن کی قدمبوسی کےلیے دو تین ہفتہ قبل ہی محمد بن سلمان نے وائٹ ہاؤس میں حاضری دی تھی۔ ان تمام لوگوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد اسرائیل پہنچ گیا تھا۔اسرائیلی حکومت امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی پر خاصی خوش ہے اور اس نے سفارت خانے کے افتتاح کے سلسلے میں یروشلم میں کئی تقاریب اور جشن کا اعلان کیا ہے۔اتوار کو افتتا حی تقریب میں شرکت کےلیے آنے والے امریکی وفد کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائیے سے خطاب میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دیگر ملکوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کریں۔خبر ہے کہ اسرائیل کی وزارتِ خارجہ میں ہونے والی اس تقریب میں اسرائیل میں تعینات 86 ممالک کے سفیروں کو مدعو کیا گیا تھا؛لیکن صرف 33 ملکوں کے سفیر اس تقریب میں شریک ہوئے۔عالمی برادری کا موقف ہے کہ یروشلم ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان طے پانے والے حتمی امن معاہدے میں ہی ہوگا۔حالانکہ دنیا کے بیشتر ملکوں اور اقوامِ متحدہ کے خیال میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کسی امن معاہدے سے قبل سفارت خانوں کی یروشلم منتقلی سے خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا اور عالمی براری کی غیر جانب داری متاثر ہوگی،لیکن عالمی اداروں اور خود امریکہ کے قریب ترین اتحادی یورپی ممالک کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے گزشتہ سال جون 2017میں اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔جبکہ اسرائیلی حکام امریکہ کے اس اقدام کو اپنے موقف کی فتح اور فلسطینی مقبوضات پر اپنے مالکانہ دعووں کی حمایت سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ دوسرےممالک بھی اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر لیں ۔اس کے برعکس سعودی عرب اوراس کے حواری عرب ممالک خاموش ہیں اور چھپ چھپ کر اس جشن کا مزہ لے رہے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب یا دیگرعرب ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی پر کوئی حیرت نہیں ہے؛اس لیے ان کی منافقانہ روش اور امریکہ کی غلامی کا قلادہ ان گردنوں میں دیکھتے دیکھتے ہم اب عادی ہوچکے ہیں ۔ہمیں افسوس ملت کے اخباری شیروں پر ہے جو امریکہ کے خلاف اردواخبارات کے صفحات پرخوب دہاڑتے ہیں ،جہاں پانچ سو روپے میں بھی ان کےلیے آدھےصفحے کی گنجایش نکال دی جاتی ہے ، مگرجب معاملہ ان کے عربی خداؤں کا ہو،تو ان سورماؤں کو سانپ سونگھ جاتا ہے اورہمارے کاغذی شیرڈرپوک گیدڑ کی طرح بلوں میں گھس جاتے ہیں ۔بے چین ملت کی پشت پر ہاتھ رکھ کر ان کے زخم کا احساس کرنا بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ آج ملت اسلامیہ مخلص قائدوں سے محروم اور جبہ پوش منافقوں میں گھری ہوئی ہے!
رابطہ: 08076397613

You may also like

Leave a Comment