Home نقدوتبصرہ الیاس احمدگدی اور سنجیوکی ناول نگاری کاتقابلی مطالعہ

الیاس احمدگدی اور سنجیوکی ناول نگاری کاتقابلی مطالعہ

by قندیل

نورالسلام ندوی 
زیر تبصرہ کتاب’’ الیاس احمد گدی اور سنجیو کی ناول نگاری کا تقابلی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر رضوانہ پروین کی دوسری تصنیف ہے ۔ اس سے قبل’’ تفہیم و تعبیر‘‘ 2014 میں شائع ہوکر قدردانوں سے داد تحسین وصول کر چکی ہے ۔ مصنفہ نے ایک ایسے موضوع کو تحقیق کو تنقید کے لئے منتخب کیا ہے جس پر نسبتاً کم توجہ دی گئی ہے ۔ جب ہم تقابلی مطالعہ کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ’’ تقابلی ادب ‘‘کے نام پر دو مختلف زبانوں کے ادب ، ادبی رجحان اور ادیبوں کا تقابل ہی پیش نظر رہتا ہے ۔ حالانکہ تقابلی مطالعہ دو الگ الگ زبانوں کے ادبیات اور ادبی اصناف کے درمیان فرق و مماثلت کو سمجھنے اور دونوں کی خوبیوں ، خامیوں اور خصوصیتوں کو واضح کرنے کا عمدہ ذریعہ بھی ہے ۔ علامہ شبلی نعمانی نے’’ موازنہ انیس ودبیر‘‘ لکھ کر اردو زبان میں ایک ہی صنف پر دو الگ الگ شاعر کے درمیان موازنہ و مقابلہ کی بڑی عمدہ نظیر پیش کی ہے ۔ تقابل عموماً دو ادبی رجحان ، رویوں ، ایک ہی صنف کی دو الگ الگ مصنف کے درمیان کیا جاتا ہے ۔ تقابلی مطالعہ کی ایک اور جہت ہے اور وہ ہے ایک صنف کی دو الگ الگ زبانوں کی تخلیق کا تقابل و موازنہ۔ اس پس منظر میں نئی نسل کی خاتون ادیبہ و مصنفہ ڈاکٹر رضوانہ پروین کی تازہ ترین کتاب ’’الیاس احمد گدی اور سنجیو کی ناول نگاری کا تقابلی مطالعہ‘‘ ہر لحاظ سے مفید اور لائق ستائش کا وش ہے ۔
چار ابواب پر مشتمل یہ کتاب 272 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ۔ باب اول میں اردو اور ہندی کے علاقائی ناول نگاری کے معنٰی اور تعریف بیان کرتے ہوئے اردو اور ہندی میں علاقائی ناول نگاری کے اسباب ،وجوہات اور روایت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اردو اور ہندی میں علاقائی ناول نگاری کو فروغ دینے میں اس وقت کی سیاسی و سماجی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس حوالہ سے مصنفہ نے اردو اور ہندی کے ان منتخب ناولوں کا تجزیہ کیا ہے جن میں علاقائی مسائل بیان کئے گئے ہیں۔
باب دوم کے تحت الیاس احمد گدی اور سنجیو کی زندگی کے احوال و آثار بیان کئے گئے ہیں ۔ الیاس احمد گدی کہاں پیدا ہوئے؟کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،کہاں اور کس سے تعلیم حاصل کی،کب شادی ہوئی،علمی اور ادبی زندگی کا سفر کب شروع کیا؟؟؟یہ اور ان جیسے دیگر پہلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے،الیاس احمد ، گدی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ گدی کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں، مصنفہ گدی قوم کے طرز معاشرت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں۔
’’گدی قوم راجپوتوں کے طرز پر رہائش پذیر ہے ، اور انہیں کے رسم و رواج کو مانتے ہیں، آج بھی گدیوں کے یہاں شادی بیاہ کے مواقع پر غیر مسلموں کے طرز پر درجنوں رسوم ادا کئے جاتے ہیں ۔۔۔۔ در اصل گدی برادری ایک قبائلی نظام کے تحت قائم ہے ، ان کے اپنے قوانین ہیں ، یہ ختنہ کرواتے ہیں اور بڑے (گائے کا) گوشت بھی کھاتے ہیں ، یہ غیر برادری میں شادی بیاہ نہیں کرتے، گدی صورت و شکل میں مسلمان اور لباس سر تا پا ہندوانہ زیب تن کرتے ہیں‘‘ ۔ (ص 60/61 ) اسی طرح انہوں نے سنجیو کی حالات زندگی پر خوب روشنی ڈالی ہے ، ان کی پیدائش ،خاندانی ماحول اور علمی و ادبی سرگرمیوں پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے ۔
باب سوم میں انہوں نے’’ فائر ایریا‘‘ اور’’ ساؤدھان ! نیچے آگ ہے‘‘ کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ تجزیہ کرتے ہوئے ناول میں کارفرما سیاسی و سماجی رجحانات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اور بطور خاص کردار نگاری کا تجزیہ کیا گیا ہے اور فنی حیثیت سے ناول اور کردار کو پرکھنے کی سعی کی گئی ہے۔ مصنفہ نے ’’فائر ایریا ‘‘کا تجزیہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے ۔
’’فائرایریا میں مصنف نے ناول کے تمام اجزا کو بحسن و خوبی برتا ہے ، منظم پلاٹ، عمدہ کردار نگاری ، سحرانگیز فضا بندی کے ساتھ ساتھ دلنشیں اور سلیس اسلوب میں ناول نگاراپنی بات کی ترسیل میں کامیاب ہے ۔ اس ناول کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ فن پر فکر حاوی نہیں ہوا ہے، بلکہ ان دونوں کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے ‘‘۔ (ص 125 )
اسی طرح’’ ساؤدھان !نیچے آگ ہے‘‘ کا تجزیہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ ناول کے پلاٹ اور کردار پربھر پور روشنی ڈالی گئی ہے ، اور ناول کے متن میں کارفرما حقیقی مسئلہ کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ مصنفہ نے دونوں ناول کا دل آویز تجزیہ کیا ہے اور دونوں ناول کے موضوعات اور اس کے بنیادی مسائل ، واقعات ، اسلوب اور ترسیل پر اچھی روشنی ڈالی ہے،کردار نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنفہ تحریر کرتی ہیں:’’کردار نگاری کے معاملہ میں ناول نگار نے احتیاط برتا ہے،کرداروں کو فلیٹ نہیں ہونے دیا ہے،جہاں کرداروں کی خوبیاں گنوائی ہیں وہیں اس کی کج روی کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے ہیں ،جس سے کردار زندہ معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ ناول میں علاقائی بولیوں ، محاوروں، فقروں اورلوک گیتوں کا تخلیقی اظہار ہوا ہے اس کومثالوں سے بیان کیا گیاہے ۔
باب چہارم میں’’ فائر ایریا‘‘ اور’’ ساؤدھان! نیچے آگ‘‘ ہے کا تقابل کیا گیا ہے ، جو دراصل سابقہ باب کا تتمہ ہے اور یہ کتاب کا مرکز ی باب بھی ہے ۔ ’’فائر ایریا ‘‘اور ’’ساؤدھان !نیچے آگ ہے ‘‘دونوں کا مرکزی موضوع ایک ہی ہے ۔ کولیری علاقے اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل و معاملات ، سرمایہ داروں کا جبر اور مزدوروں کا استحصال ۔ مصنفہ نے دونوں ناولوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لئے چار پیرا میٹر منتخب کئے ہیں ۔موضوع، کردار نگاری ، تکنیک اور اسلوب ، ان چاروں اصولوں کی روشنی میں دونوں ناولوں کا حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدرانہ موازنہ وتقابل کیا گیا ہے ۔ موضوع کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے دونوں میں کیا کیا مماثلت اور یکسانیت ہیں اور دونوں میں کیا اختلاف ہیں اسے بیان کیا گیا ہے اور دونوں کے انفرادی پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ اسی طر ح کردار نگاری کا تقابل کرتے ہوئے دونوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے ،اور کون سے کردار کتنے کامیاب اور جاندار ہیں اسے واضح کیا گیا ہے ۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ مصنفہ نے بڑی عرق ریز ی سے کرداروں کے رول میں یکسانیت کے پہلو تلاش کرنے میں کامیاب رہی ہیں،اور اس یکسانیت کے اسباب کو بھی بیان کیا ہے ۔ کرداروں کے پیشکش میں ناول نگارنے کس حد تک حقیقت پسندی سے کام لیا ہے اس پر بھی گفتگو کی گئی ہے ۔ناولوں کے کردار کا موازنہ کرتے ہوئے مصنفہ تحریر کرتی ہیں:’’دونوں ناولوں میں چند کردار ایسے ہیں جن کے اسماء کو اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے فراموش کر ان کے رول کو صرف نگاہ میں رکھیں تو بظاہر ان میں کوئی تفریق نظر نہیں آتی،مثلا فائر ایریا کا مجمدار اور ساودھان ! نیچے آگ ہے کا وشٹودا ان دونوں کا تعلق بنگال سے ہے،دونوں پڑھے لکھے اور اشتراکی نقطہ نظر کے حامل ہیں،ناول کے درمیان میں دونون کی موت واقع ہو جاتی ہے‘‘۔(ص215)
ناول کے تکنیک پر اظہار خیال کرتے ہوئے دونوں ناول کے تکنیک کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے ،کس ناول نگار نے کون سا تکنیک استعمال کیا ہے ؟ اسلوب کیساہے ؟ ناول نگارنے اپنی بات کی ترسیل کے لئے کون سا پیرایہ اظہار استعمال کیا ہے؟ کردارکی زبان اور مکالمے کس نوعیت کے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ صرف موضوع کی یکسانیت اور ہم آہنگی خاص بات نہیں ہے ، بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تخلیق کار کے پیشکش کا انداز کس حد تک متاثرکن اور منفرد ہے ۔ اس حوالہ سے مصنفہ نے دونوں ناولوں کے اسلوب اور طرز اظہار کا بھی بھرپور تقابل کیا ہے ۔دونوں کے تکنیک کا موازنہ اور تجزیہ کرتے ہوئے مصنفہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’تکنیک کے استعمال میں سنجیو جی الیاس صاحب سے آگے ہیں،جہاں تک اسلوب کی دلکشی کا معاملہ ہے تو الیاس صاحب سو فیصد کھڑے اترتے ہیں،فایر ایریا کا قاری کہیں قباحت محسوس نہیں کرتا ،جبکہ ساودھان !نیچے آگ ہے کا قاری تسلسل اور دلچسپی کی کمی محسوس کرتا ہے‘‘۔
الیاس احمد گدی اور سنجیو کی ناول نگاری کا تقابلی مطالعہ کی قرأت سے انداز ہ لگانا مشکل نہیں کہ مصنفہ کا تحقیقی شعور بالیدہ ہے ،وہ صرف بندھے ٹکے رائج اصول کے مطابق نرے تحقیق نہیں کرتیں بلکہ باریک بینی سے ایک ایک پہلو پر غور کرتی ہیں اور حقائق کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کرتی ہیں۔بلا شبہ ان کی کتاب عملی تنقید اور تقابل و موازنہ کی عمدہ مثال ہے ،زبان بھی صاف ستھری اور شگفتہ ہے ۔ البتہ کئی ابواب میں گھما پھرا کر ایک ہی بات بار بار دہرائی گئی ہے ،جو قاری کو بارگراں گذرسکتی ہے ۔ بہر حال ان معمولی فروگذاشتوں سے قطع نظر ڈاکٹر رضوانہ پروین کی یہ کتاب’’ تقابلی تنقید‘‘ میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔ جس کی پذیرائی بہر حال ہونی چاہئے ، امید ہے کہ ادبی دنیا میں ڈاکٹر رضوانہ پروین کی اس کتاب کا شاندار استقبال ہوگا۔معیاری طباعت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ مذکورہ کتاب تین سو روپے میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،نئی دہلی کے علاوہ پٹنہ،کلکتہ،لکھنو،اور دیگر شہروں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
[email protected]

You may also like

Leave a Comment