تازہ بہ تازہ، سلسلہ 7
فضیل احمد ناصری
ہمارے دور کے کچھ پاسباں ایسے نرالے ہیں
چمک چہرے پہ رکھتے ہیں، مگر کردار کالے ہیں
دوامی دشمنوں کو مانتے ہیں ہم نَفَس اپنا
الہی یہ حرم والےبھی کتنےبھولےبھالےہیں
اُدھر سوداگری جاری ہے ملت خور بندوں کی
اِدھر اپنے عوام الناس کے ہونٹوں پہ نالے ہیں
جفاکاروں نے مفہومِ قیادت بھی بدل ڈالا
جو غیرت کا کریں سودا وہ ملت کے جیالے ہیں
نہ مانا تھا، نہ مانیں گے انہیں پیرِ سفر اپنا
وہ کم ہمت مسافر جن کے پاؤں میں بھی چھالے ہیں
کمی کوئی نہیں اب بھی یہاں ملت فروشوں کی
بباطن چشمۂ ظلمت ہیں، ظاہر میں اجالے ہیں
حسینی ہیں، مگر کردار رکھتے ہیں یزیدوں سا
مسیحا خود کو کہتے ہیں، مگر باطل کے آلے ہیں
خطابت ہے، مگر سینہ ہے خالی سوزِ پنہاں سے
انہیں بادل نہ گردانو! یہ سب روئی کے گالے ہیں
نہ فکرِ ملتِ بیضا، نہ کچھ خوفِ خدا ان کو
جو سچ کہیے تو یہ اہلِ صنم کے تر نوالے ہیں
بھلائی کی توقع کیا رکھیں اے ناصری ان سے
خداکےجلوہ خانےبھی جنھوں نے بیچ ڈالےہیں