محمد رضا جاسم
اردو افسانہ نگاروں میں پریم چند کی شخصیت کئی حیثیتوں سے منفرد ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے جدید انداز کی افسانہ نگاری کی بنیاد رکھی ۔ اسی لئے وہ جدید افسانہ نگاری کے بانی کہلاتے ہیں ۔ان سے پہلے جورومانی انداز کی کچھ کہانیاں اور کچھ قصے موجود ہیں وہ سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتحپوری کے ہیں۔ باضابطہ افسانے میں حقیقت نگاری کی ابتدا پریم چند سے ہی ہوتی ہے۔
کفن پریم چند کا نمائندہ افسانہ ہے ۔اس افسانے کو خاص وعام میں مقبولیت حاصل ہے اور اسے قارئین بڑی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔پریم چند کی کہانی ’’کفن ‘‘یا ’’زیور کا ڈبہ‘‘ پڑھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایسے افسانے ہیں جن میں افسانہ نگاری کے مکمل عناصر موجود ہیں یعنی بے مثال کردار ہیں، ایک بہترین ابتدا ہے ،کہانی کی اٹھان ہے، قاری جب انھیں پڑھتا ہے تو منتظرومتجسس رہتا ہے کہ اب آگے کیا ہونے والاہے۔اس طرز پر لکھے ہوئے افسانے جو جدید افسانے کے تقاضے کو پورا کرسکتے ہیں وہ یقیناًپریم چند سے ہی شروع ہوتے ہیں۔
کفن سب سے پہلے اردو میں ماہنامہ ’’جامعہ‘‘۱۹۳۵ میں شائع ہواتھا۔ اس کے چند ماہ بعد ہندی میں ماہنامہ’’چاند‘‘(اپریل ، ۱۹۳۶ ) میں چھپا اردو اور ہندی متون میں کہیں کہیں زبان اور بیان کی تبدیلیاں ہیں لیکن دونوں کا مجموعی تاثر یکساں ہے۔
( پریم چند:کچھ نئے مباحث ،مصنف مانک ٹالا)
پریم چندکے افسانے’کفن‘میں بیک وقت اعلی ادبی وزن ووقار ملتا ہے اور شدید افسانوی کیفیات بھی ملتی ہیں۔اس سے افسانے کے فن اور ادب دونوں کے دواعی ومطالبات کی تسکین ہوتی ہے۔پلاٹ کا حسن ترتیب،فنی کردار نگاری،ماحول کی عکاسی،حسب حال مکالمے شروع سے آخر تک دلچسپی کاوجود،اثرانگیزی،بھوک کا احساس ،اعتماد اور بے اعتمادی اس افسانے کی امتیازی خصوصیات ہیں۔اس افسانے کی تلخیص یہ ہے کہ
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے، بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا درد زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی۔سردی کا موسم تھا گھیسو اور مادھو ایک دوسرے سے بات کرنے میں مصروف تھے ۔چماروں کا کنبہ تھا سارے گاوں میں بد نام،دونوں مزدور ی کیا کرتے تھے ۔گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام ،یہ دونوں کاہل تھے۔انھوں نے الاؤ کے پاس آلو نکال کرکھایا اور پانی پی کر وہیں سوگئے اور بدھیا ابھی دردسے کراہ رہی تھی یہاں تک کہ صبح ہوگئی ۔صبح جب بیدار ہوئے تو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو وہ ٹھنڈی پڑی ہوئی تھی یعنی مر چکی تھی ۔دونوں بدھیا کے کفن کے لئے روتے پیٹتے ایک زمیندار کے پاس کچھ پیسہ مانگنے کے لئے گئے اس نے دو روپے دیئے تو گھیسو نے اور دوسرے لوگوں سے بھی رقم جمع کرالی اس طرح اس کے پاس کل ۵ ؍روپے ہوگئے لیکن وہ بازار جاکربجاے کفن لانے کے ان پیسوں سے شراب اور پوریاں خرید کر ہضم کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کفن اسے گاؤں والے دے دیں گے۔ دن ڈھلتا جارہا تھا لوگ انتظار میں تھے کہ وہ کفن لائیں گے لیکن خالی ہاتھ اور روتے ہوے واپس پلٹے تو زبان پر ایک گانا تھا:
ٹھگنی کیوں نیناں جھمکاوے ٹھگنی
سارا میخانہ محو تماشہ تھا پھر یہ دونوں ناچنے لگے اورآخر نشے سے بد مست ہوکر وہیں گر پڑے۔
پریم چند نے ایسے ایسے کردار پیش کئے ہیں جن کے اندر ہمیشہ رہنے والی قدریں ملتی ہیں ۔ جن پر کبھی زوال نہ آئے گا۔ کردار وہی اچھے ہوتے ہیں جو ہر زمانے کا ساتھ دیں جن کی کرن مدھم نہ پڑے ،جن کے نقوش تاریخ کے دامن میں محفوظ ہوجائیں جن کے ہر عمل اور حرکت پر لوگ فخر کریں،کفن کے کردار میں یہ خصوصیات پورے طور پر ملتی ہیں۔پریم چند کی باریک بیں نگاہ نے اس افسانے کے کردار کو امر بنادیا ہے۔
اس افسانے کے شروع میں پریم چند نے جو عبارت لکھی ہے ۔اس سے باپ اور بیٹے کے مزاج کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ۔
’’گھیسو نے کہا معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔سارا دن تڑپتے ہوگیا ۔جا دیکھ تو آ۔
مادھو درد ناک لہجے میں بولا ۔مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔دیکھ کر کیا آؤں ؟
تو بڑا بے درد ہے بے ۔سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا دکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی ‘‘
اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غربت کے عالم میں بھی باپ کے اندر ابھی وہ احساس انسانیت باقی ہے جو ایک انسان کے اندر پایا جانا چاہیئے لیکن مادھو غربت کی وجہ سے احساس انسانیت کھو چکا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ بدھیا کے مرنے کی تمنا کرتا ہے لیکن پھربھی گھیسو باپ ہونے کے ناطے اپنے بیٹے کو احساس درد دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ جس کے ساتھ تونے زندگی کا دکھ درد سہا ہے اب اس سے اتنی بے وفائی ۔
یہاں پریم چند کی وہ عبارت نقل کی جاتی جو باپ اور بیٹے کے مابین اعتمادی رشتے کو توڑ دیتی ہے۔
’’مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا توگھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ صا ف کردے گا ۔بولا ۔مجھے وہاں ڈر لگتا ہے ۔
ڈر کس بات کا ہے میں تو یہاں ہوں
تو تمہیں جاکر دیکھو‘‘
اس عبارت کے مطالعہ کے بعد یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ بھوک اور محرومی میں دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کر پارہے ہیں ۔اگران دونوں میں سے کوئی بدھیاکو دیکھنے گیا تو دوسرا اس کے آلو کھاجائے گا اس لئے دونوں میں سے کوئی بھی بدھیا کی حالت دیکھنے کو نہیں جاتا ہے۔لیکن وہیں افسانے کے دوسرے مقام پر باپ اپنے بیٹے کو یقین دلاتا ہوا نظر آتا ہے ۔وہ عبارت نیچے مکتوب ہے۔
’’جو وہاں ہم لوگوں سے وہ پوچھے گی کہ تم نے کپھن کیوں نہیں دیا تو کیا کہوگے؟
کہیں گے تمہارا سر۔
پوچھے گی تو جرور۔
تو کیسے جانتا ہے اسے کپھن نہ ملے گا؟ تو مجھے گدھا سمجھتا ہے اس ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہاہوں اس کو کپھن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا جو ہم دیتے۔
مادھو کو یقین نہ آیا بولا کون دے گا،روپئے تو تم چٹ کرگئے۔
گھیسو تیز ہوگیا۔ میں کہتا ہوں اسے کپھن ملے گا ۔تو مانتا کیوں نہیں ؟
کون دے گا۔بتاتے کیوں نہیں۔
وہی لوگ دیں گے جنھوں نے اب کی دیا۔ہاں وہ روپئے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آجائیں تو پھر ہم اسی طرح یہاں بیٹھے ہوئے پئیں گے ۔اور کپھن تیسری بار ملے گا‘‘
اس اقتباس میں لفظ ’وہاں‘ بتارہاہے کہ ہندؤں کے اعتقاد میں بھی اس دنیا کے علاوہ دوسری دنیا کا تصور پایاجاتا ہے جہاں پر بدھیا ان دونوں سے کفن نہ دینے کے بارے میں سوال کرسکتی ہے۔یہاں پوچھے یا نہ پوچھے لیکن وہاں ضرور پوچھے گی اور اسے اس دوسری دنیا پر اعتبارہے۔ اور گھیسو اپنی ساٹھ سالہ زندگی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ بدھیا کو کفن ضرور ملے گا اس کا مطلب ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات اپنی آنکھوں سے اس سے پہلے دیکھ چکا ہے جب کسی گاؤں میں، کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہوں ،کوئی مرجاتا ہے اگر اس کے کفن کا انتظام میت کے گھر والے نہیں کرپاتے تو گاؤں والے میت کے کفن کا انتظام کرتے ہیں۔اس لئے اسے اعتماد ہو گیا ہے۔
اس افسانے کے اس اقتباس سے ایک اوربات واضح ہوجاتی ہے کہ جب دونوں پیسے کو چٹ کرجاتے ہیں تو مادھو کے پوچھنے پر کہ اب اس کو کفن کہاں سے ملے گا اور اس کے کفن کا انتظام کون کرے گا ۔ گھیسو اپنی ساٹھ سالہ زندگی کا تجربہ بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے ضرور کفن ملے گا۔ اسے یقین دلاتا ہے ۔اسے وہی لوگ کفن دیں گے جنھوں نے اس سے پہلے ہم کودیا لیکن فرق یہ ہوگا کہ اس مرتبہ پیسے ہمارے ہاتھ میں نہیں آئیں گے۔ سماج میں رہنے کی وجہ سے پیسہ چٹ کرجانے کے بعد بھی بدھیا کو کفن دینے کی فکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غریب سے غریب انسان بھی اپنے گھر کی میت کو نہیں چاہتا کہ اسے کفن نہ ملے۔گھیسو کا کہنا یہ ہے کہ اگر اس بار بھی لوگوں نے ہمارے ہاتھ میں پیسے دئیے تو پھر ہم اسے شراب پینے اور پوریاں کھانے میں صرف کردیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بار گاؤں والے ان کے ہاتھ میں پیسہ دیتے رہتے وہ اسے چٹ کرجاتے رہتے۔یہ ان کی بے حیائی کی حد ہے اور معاشرے پر اعتماد بھی ہے۔
جس سماج کی فضا میں چماروں کا یہ کنبہ زندگی بسر کر رہا ہے اس میں کھیتی باڑی ہے اور مزدوری کرنے کے لئے بھی بہت سے کام ہیں۔محنت کشوں کے لئے ہزاروں کام ہیں۔ ایسے ماحول میں بھی یہ دونوں کام چور ہیں جوانجانے طور پر ان کی ’عقلمندی‘کا مظہر ہے ایسا اس لئے ہے کہ گاؤ ں کے دوسرے لوگوں کی حالت محنت کرنے کے باوجود ان کی حالت سے کچھ بہتر نہ تھی ۔ان محنت کشوں کی محنت کا جائزاورناجائز فائدہ زمیندار اٹھاتا ہے۔مادھو اور گھیسو جب کام ہی نہیں کریں گے تو ان کی محنت کا جائز یا ناجائز فائدہ اٹھانے کا سوال نہیں پیدا ہوتا ہے۔ ان معنوں میں یہ عقلمند ثابت ہوتے ہیں۔اور مادھو اور گھیسو کے عمل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسانوں کا جو استحصال زمیندار کھلم کھلا کرتا ہے اس کا انتقام یہ دونوں ’آلو کھود کر یا مٹر اور گنا توڑ کر لیتے ہیں ۔بھلے ہی چھپے طور پر ۔یہ دونوں استحصال کے خلاف عملی طور پر انتقام لیتے ہیں۔
معاشرے میں ان کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کہیں مزدوری کے لئے جاتے بھی تو وہاں ایک گھنٹہ کام کرتے تو دو گھنٹہ چلم جلاتے۔ ایک دن کام کرتے تو دو تین دن آرام جب سارا پیسہ ختم ہوجاتا اور گھر میں دو تین دن فاقے ہوجاتے تب دونوں پھر مزدوری کے لئے نکلتے
۔ گاؤں والوں سے قرض لیتے اور اسے چکاتے بھی نہیں۔اسی لئے گاؤں والوں کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہ تھی اور ان پر اعتماد اور بھروسہ بھی نہیں کرتے تھے ۔لیکن اس کے باوجود ان دونوں کو امید ہوتی ہے کہ جب بھگوان ہمیں کوئی بیٹا عطا کرے گا تو گاؤں والے ہماری مدد کریں گے۔ جیسا کہ اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے:
’’بھگوان بچہ دیں تو جو لوگ بھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں وہی تب بلاکر دیں گے ۔میرے نو لڑکے ہوئے ۔گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ مگر اسی طرح ہر بار کام چل گیا‘‘
یہ مقام ہے جہاں گھیسو کو معاشرے سے اتنی امید ہے کہ جو ابھی ہمیں ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں وہی بدھیا کے رحم سے آنے والے بچے کے لئے ہمیں لاکر پیسہ دیں گے ۔ایک دوسرا مقام یہ ہے کہ جب بدھیا اس دنیا سے گذر جائے گی تو لوگ ہماری غربت پر ترس کھاکرہمیں لاکر پیسہ دیں گے ۔اسی وجہ سے جب صبح ہوتے ہی مادھو اپنی بیوی کو دیکھنے جاتا ہے تو اسے مری ہوئی دیکھکر دوڑتا ہوا اپنے باپ کی طرف روتا پیٹا آتا ہے اور کہتا ہے بدھیا مرگئی ہے تو دونوں کو بدھیا کے کفن کی تشویش ہوتی ہے کہ کہاں سے کفن کا انتظام کیا جائے اس لئے دونوں روتے پیٹتے ایک زمیندار کے پاس کفن کے انتظام کی خاطر پیسہ مانگنے کے لئے پہنچتے ہیں ۔گھیسو اس لئے زمیندار کے پاس جاتا ہے کہ اسے زمیندار پر بھروسہ ہوتا ہے کہ اسے دھتکارے گا نہیں بلکہ کچھ نہ کچھ پیسہ کی مدد ضرور کرے گا ۔جبکہ زمیندار ان کی صورت سے نفرت کرتا ہے اورچوری کی بناپر ان کو پیٹ بھی چکاہے اس کے باوجود بھی انھیں امید ہے کہ وہ ہماری مدد ضرور کرے گا ۔ پریم چند نے اس طرف اشارہ کیا ہے:
’’باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمیندار کے پاس گئے وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے ہیں کئی بار انھیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے ہیں چوری کی علت میں ،وعدے پر کام پر نہ آنے کی علت میں ،پوچھا : کیا ہے بے گھیسو ! روتا کیوں ہے اب تو تیری صورت ہی نظر نہیں آتی اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں رہنا نہیں چاہتے۔
گھیسو نے زمین پر سر رکھ کر ،آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے کہا ،سرکار بڑی بپت میں ہوں ،مادھو کی گھر والی رات گجر گئی ۔دن بھر تڑپتی رہی سرکار آدھی رات ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توطوعاً وکرہاً دو روپئے نکال کر پھینک دئیے ‘‘
اس اقتباس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گھیسو کے ذریعے پریم چند نے جو زندگی کی عکاسی کی ہے وہ مجبوری اور بے بسی سے پُرہونے کے باوجود اعتماد پایا جاتا ہے۔ ایک اور موقع جہاں پر گھیسو معاشرے پرامید لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔وہ یہ کہ گھیسو زمیندار سے دو روپئے لیکر گاؤں کے بنئے کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس امید کے ساتھ کہ کوئی بھی اسے خالی ہاتھ واپس نہیں کرے گا بلکہ ہر ایک کچھ نہ کچھ اسے ضرور دیں گے اورا گر گھیسو کو اپنے معاشرے پر اعتماد نہ ہوتا تو وہ ان کی طرف کبھی رجوع بھی نہ کرتا ۔اور اسے ناامید بھی نہیں کرتے ہیں۔
وہ اقتباس نیچے نقل کیا جارہا ہے جہاں پر گھیسو بنئے کی طرف رجوع کرتا ہے کہ
’’جب زمیندار صاحب نے دو رروپئے دیئے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرات کیونکر ہوتی گھیسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈھورا پیٹنا جانتا تھا ۔کسی نے دو آنے ،کسی نے چار آنے ،ایک گھنٹے میں گھیسو کے پاس پانچ روپیہ کی معقول رقم جمع ہوگئی،کسی نے غلہ دیا ،کسی نے لکڑی‘‘
ایک اور مقام پر یہ لوگ معاشرے پر اعتماد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس سماج میں کاشتکاری ،کھیتی باڑی اور دیگر ذریعۂ معاش موجود ہو اور محنت کرکے کمائی کرسکتے ہوں اس کے باوجود بھی یہ ایسا نہیں کرتے، کیوں ؟ اسلئے کہ انھیں معاشرہ پر اتنا بھروسہ ہے کہ جب بھی ہم مصیبت کے وقت ان کے پاس مدد کے لئے جائیں گے تووہ ہماری مدد ضرورکریں گے۔
ان کے اعتماد کی حد یہ ہے کہ جب پانچ روپئے سے جیب گرم ہوجاتی ہے تو اپنی بھوک وپیاس کو مٹانے کے لئے بازار میں جاتے ہیں اوراسی پیسے سے شراب پیتے ہیں اور پوریاں بھی خریدکر کھاتے ہیں جو پوریاں بچ جاتی ہیں، تو سامنے ایک ایسا فقیر، جو ان سے بھی زیادہ تنگ دست ہوتاہے اسے بلاکر وہ ساری پوریاں کھلا دیتے ہیں۔اور خوش ہوتے ہیں کہ آج ہم نے بھی کسی کو کھانا کھلایاہے ۔وہ یہ سوچتے تک نہیں کہ یہ ہم سے بھی نیچی ذات کا ہے یا وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ گاؤں والے ہمیں دوبارہ پیسہ دیں گے یا نہیں۔وہ ا قتباس بھی ملاحظہ ہو:
’’کھانے سے فارغ ہوکر مادھو نے بچی ہوئی پوریوں کا پتل اٹھاکر ایک بھکاری کو دے دیا جو کھڑاان کی طر ف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہاتھا اور’دینے‘کے غرور اور مسرت کا اور ولولہ کا اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا ‘‘
دونوں کو معلوم ہے کہ ہمارے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں اور یہ جو پیسہ حاصل کیا ہے یہ ہاتھ پھیلاکرکسی اور سے مانگا ہے ۔اگریہ پیسے آج ختم ہوگئے تو کل کہاں سے کھائیں گے ۔اس کے باوجود بھی وہ بچی ہوئی پوریا ں بھکاری کو دے دیتے ہیں ۔صرف اس وجہ سے کہ وہ معاشرے پر بھروسہ کرتے ہیں جنھوں نے اس وقت ہمیں پیسہ دیا ہے وہی لوگ کل بھی ہمیں پیسہ دیں گے۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ جہاں امیر کی خواہش ہوتی ہے کہ پہلے اپنا پیٹ بھریں ،وہیں سب ایسی تنگ دستی میں بھی دوسروں کوکھانا کھلارہے ہیں ۔یہ ان کی انسان پروری ہے۔
پریم چند نے گھیسوکے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھوک اور محرومی کے عالم میں بھی معاشرے سے جڑے رہنے کے لئے اعتماد بہت ضروری ہے اگر ایک دوسرے پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا تو انسان اکیلا رہ جائے گا ۔
پریم چند نے لکھا ہے کہ بدھیامادھو اور گھیسو کے گھرمیں تمد ن کی بنیاد بن گئی ۔جب سے بیاہ ہوکے بدھیا، مادھو کے گھر آئی ہے تب سے وہ محنت مزدوری کرکے اپنا بھی پیٹ پالتی ہے اور ان دونوں بے شرموں کا بھی ،بلکہ پریم چندنے یہاں تک کہا کہ بدھیا کے گھر میں آجانے کے بعد یہ اور زیادہ آلسی اور کاہل ہوجاتے ہیں۔ وہ عبارت ملاحظہ ہو:
’’جب سے یہ عورت آئی اس نے خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی ،پسائی کرکے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھر تی رہتی۔وہ یہ دونوں اور آرام طلب اور آلسی ہوگئے تھے‘‘
پریم چند نے عورت کی نسبت یہ واضح کیا ہے کہ ایک عورت کے اندر اتنی صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ تہذیب وتمدن کی بنیاد بنے جس طرح بدھیا ،مادھو اور گھیسو کی تمدن کی بنیاد بنی۔ اسی لئے بدھیا بھی آج کے معاشرے کی تہذیب و تمدن کی بنیاد بن سکتی ہے ۔جتنا ایک مرد تہذیب وتمدن کوسنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اتنا ہی ایک عورت بھی ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے شرط یہ ہے کہ اس کے حقوق کو پورا کیا جائے ۔ پریم چند نے اس افسانے میں بدھیا کا وہ کردار پیش کیا ہے کہ جو بدھیا ہی مادھو اور گھیسو کی بھوک کو مٹانے کا سہارا بنی ۔
بدھیا کے علاوہ ایک اور چھپا ہوا کردار ہے جسے پریم چند نے پیش کیا ہے وہ گھیسو کی بیوی اور مادھو کی ماں ہے حالانکہ اس کردار پر پریم چند نے زیادہ روشنی نہیں ڈالی ہے لیکن اشارتاً قارئین تک ایک اہم بات پہونچانے کی کوشش ہے وہ یہ ہے کہ گھیسو نے کہاکہ میری بیوی نے بھی زندگی بہت دکھ درد سہے ہیں۔اس وقت جب گھیسو،اپنے بیٹے سے بیمار بدھیا کی حالت معلوم کرنے کو کہتا ہے کہ جا دیکھ تو آ۔ وہ کس حالت میں ہے ۔تو مادھو نے کہا کہ تمہیں جاکر دیکھو نہ ۔تب گھیسو نے کہا کہ:
’’میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن اس کے پاس ہلا بھی نہیں تھا ‘‘
گھیسواپنی بیوی کی بیماری کی حالت میں اس کے پاس سے تین دن تک نہیں ہلا۔یہ اس کے شوہر ہونے کے ناطے بہترین عمل ہے۔جو اس نے عمل کرکے دکھا یا ہے۔
اسی طرح پریم چندنے اپنی کہانی نوک جھونک ،ٹھاکر کا کنواں، بوڑھی کاکی،بڑے گھر کی بیٹی،میں عورتوں کے کردار کو مستحکم اور مضبوط بناکر پیش کیا ہے جو معاشر کے برے رسم ورواج کا مقابلہ کرتی ہیں۔ یہ سب کردار اپنے میں بہت مضبوط اور ماڈرن کرادر ہیں۔
ہر عقلمند باپ اپنی اولادکے لئے نہ صرف مستقبل کی تعمیرکے لئے فکرمندرہتاہے بلکہ اس کے لئے وہ اپنا خون پسینہ بھی ایک کردیتا ہے ۔ لیکن اس افسانے میں گھیسو نے اپنے بیٹے کے لئے کوئی ایسی فکر نہیں کی، جس سے اندازہ ہو کہ وہ اپنے بیٹے کی ترقی کی راہ ہموار کررہاہے ۔
ٍڈھانپا کفن نے داغِ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
(مرزا غالب )