Home اسلامیات اغیار کی نقالی باعثِ ذلت و خواری

اغیار کی نقالی باعثِ ذلت و خواری

by قندیل

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
تہذیبوں کی آویزش ،ثقافتوں کاٹکراؤاور روایتوں کا تصادم کوئی انوکھی بات نہیں ،روزاول سے یہ سلسلہ بام عروج پرہے اور تاقیامت جاری رہے گا ۔ بالخصوص اسلامی تہذیب کوہرزمانے میں نت نئے چیلنجز درپیش ہوئے ،صلیبیوں،یہودیوں اور تاتاریوں کے ہاتھوں متعددمرتبہ اسلامی تمدن و حضارت پرشب خون مارنے اورچوطرفہ یلغار کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں؛مگرہربار یا تو اسلام کے متوالے اپنی تہذیب کے آگے سدسکندری بن کر کھڑے ہوگئے یا پھرکعبہ کو صنم خانہ سے پاسباں میسر آتے رہے ۔اس وقت بھی اسلامیان برصغیر کے لیے ہندوانہ تہذیب،کشمکش کا ایک ایسا دوراہا ہے ؛جہاں آکرعوام کی اکثریت قلادۂ اسلام گلوں سے نکال پھینکتی ہے اور اغیار کی نقالی کو قابل فخر کارنامہ سمجھنے لگتی ہے ۔کتاب وسنت کی اصطلاح میں اسی کو تشبہ کہاجاتاہے یعنی اپنی ہیئت و وضع تبدیل کرکے دوسری قوم کی وضع قطع اختیار کرلینا،اپنے تہذیبی ورثہ سے دست کش ہوکر دوسروں کی روایات کو حرزجاں بنالینا، اپنی حقیقی شناخت و پہچان کو مسخ کرکے غیروں کے طور طریق کو بہتر تصورکرنے لگنا۔۔۔۔۔اور یہ ایسا سنگین جرم ہے کہ رسول اللہﷺنے برے انجام کی پیشین گوئی دیتے ہوئے بددعاکے طور پرارشادفرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا۔(ابوداؤد)
شارحین حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد میں عقیدہ و ایمان کے تعلق سے غیروں سے مماثلت و مشابہت مراد نہیں ہے؛ کیوں کہ جو شخص عقیدہ و ایمان کے اعتبار سے غیر اسلامی فکر اختیار کرلے وہ توپہلے ہی سے مسلمان نہیں؛بل کہ اس حدیث میں عملی اورسماجی زندگی میں غیروں کے تشبہ سے منع فرمایا گیا ہے ، اور مختلف مسائل میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی توضیح و تشریح نے اس نکتہ کو مزیدواضح کردیاہے ۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج نکلنے ،اس کے نصف آسمان پر ہونے اور ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا کہ یہ اوقات عام طور پر آفتاب پرست قومو ں کی عبادت کے رہے ہیں، روزہ میں حکم ہے کہ افطار میں جلدی کی جائے ، تاخیرنہ کی جائے ، کہ یہ اہل کتاب کا طریقہ ہے ، یومِ عاشوراء کے ساتھ مزید ایک روزہ کا حکم ہوا، اس دن یہود روزہ رکھاکرتے تھے ،تاکہ مسلمان اپنی عبادت میں بھی ان سے ممتاز رہیں۔
ان ہدایات سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا منشا یہی ہے کہ مسلمان کو ہر شعبۂ زندگی میں دیگر اقوام سے قومی و دینی اعتبار سے ممتاز اورمشخص رہناچاہیے ۔اس کے باوجود اگر کوئی ان ہدایات کوپس پشت ڈال کر غیرو ں کی مشابہت اختیار کرتاہے تو یہ بھی ایک اعتبار سے منافقت ہے اورمنافقین کا مقام جہنم کا نچلا طبقہ ہے ۔
تشبہ کی مختلف قسمیں:
حضرت حکیم الامتؒ نے اپنی ایک کتاب میں تشبہ کے اقسام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ،مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس کا کچھ خلاصہ یہاں بھی نقل کردیاجائے ؛تاکہ مزید بصیرت حاصل ہو ۔
(1) تشبہ بالکفار اعتقادات وعبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے ، جیسا کہ نصاری کی طرح سینہ پرصلیب لٹکانا اور ہنود کی طرح زُناَّر باندھنا ایسا تشبہ بلاشبہ حرام ہے ؛کیوں کہ یہ تشبہ امور مذہبیہ میں ہے جو دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہے ان کا اختیار کرنا کفر ہوگا ۔
(2) معاشرت اورعبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے مثلاً کسی قوم کا وہ مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص انہی کی طرف منسوب ہو، اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے جیسے نصرانی ٹوپی اور ہندوانہ دھوتی، یہ سب ناجائز اور ممنوع ہے اور تشبہ میں داخل ہے ۔وعلی ہذا، کافروں کی زبان اور ان کے لب ولہجہ اور طرز کلام کو اس لئے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہوگا۔
(3) اور جوچیزیں دوسری قوموں کی نہ قومی وضع ہیں نہ مذہبی ،گوان کی ایجاد ہوں اورعام ضرورت کی چیزیں جیسے دیا سلائی یا گھڑی یا نئے ہتھیار یا نئی ورزشیں جن کا بدل ہماری قوم میں نہ ہو اس کا برتنا جائز ہے؛ مگر ان جائز چیزوں کی تفصیل اپنی عقل سے نہ کریں بلکہ علماء سے پوچھ لیں ۔ ایجادات وانتظامات اور اسلحہ اورسامانِ جنگ میں غیرقوموں کے طریقے لے لینا جائز ہے جیسے بندوق ہوائی جہاز وغیرہ یہ درحقیقت تشبہ نہیں مگرشرط یہ ہے کہ اس کے استعمال سے نیت وارادہ کافروں کی مشابہت کا نہ ہو، یہ ان ایجادات کا حکم ہے جن کا بدل مسلمانوں کے پاس نہیں اور جوایسی ایجاد ہوں کہ جس کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہو تو اس میں تشبہ مکروہ ہے ۔
(4) مسلمانوں میں جو فاسق یا بدعتی ہیں ان کی وضع اختیار کرنا بھی گناہ ہے پھر ان سب ناجائز وضعوں میں اگر پوری وضع بنائی تو زیادہ گناہ ہوگا اور اگر ادھوری بنائی تو اس سے کم ہوگا۔(ماخوذ از انفاس عیسی)
مختصر یہ کہ ہم مسلمانوں کو رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ظاہری و باطنی اعتبار سے جو کامل و مکمل اور فطری وپاکیزہ طریقۂ زندگی ملاہے ، اگر کوئی بدنصیب اسے ترک کرکے کسی اور قوم کی نقل و حرکت اور مشابہت اختیار کرتا ہے ، خواہ اخلاق و اطوار میں ہو، یا افعال و احوال میں، لباس و معاش میں ہو، یاتہذیب و تمدن میں ، جب کہ وہ طور طریق خاص ان ہی کے ہوں تو ان کی مشابہت اختیار کرنے والا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کاسچا امتی اور عاشق نہیں ہوسکتا۔
صحابۂ کرام کا جذبۂ ایمانی:
عہدنبوی ﷺمیں جب کوئی شخص مشرف بہ اسلام ہوتاتو اس میں کئی ایک تبدیلیاں رونما ہوچکی ہوتیں، ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہوتی کہ اس کی دوستی اور دشمنی کا معیار بدل جاتا ۔ جو کل تک اس کے دوست تھے وہ دشمن بن جاتے اور جو دشمن تھے وہ دوست ہوجاتے اور ان نئے بننے والے دوستوں کی خاطر وہ اپنے پرانے دوستوں سے لڑائی تک کے لیے تیار ہو جاتا؛بل کہ اس لڑائی میں اپنی جان اور مال قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ پہلے کافر تھے ، بنو حنیفہ کے سردار تھے ، مسلیمہ کذاب کے کہنے پر رسول اللہﷺ کو دھوکے سے قتل کرنے نکلے ؛مگر مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور مسجد کے ستون کے ساتھ لا کر باندھ دیا۔ رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے 146 فرمایا: ثمامہ کہو کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا: اچھا ہے ، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے (جس کا بدلہ لینے والے موجود ہیں) اور اگر مال چاہتے ہو تو فرمائیے جتنا آپ چاہتے ہیں آپ کو دیدیا جائے گا۔148 آپﷺ انہیں وہیں چھوڑ کر چلے گئے ، پھر اگلے دن ان کے پاس آئے اور ان سے یہی بات فرمائی اور انہوں نے یہی جواب دیا پھر تیسرے دن وہاں سے گذرے اور حال دریافت کیا،انہوں نے وہی جواب دیا۔ آپﷺ نے فرمایا "ثمامہ کو چھوڑ دو! ثمامہ اس(اسیری کے ) دوران قرآن پاک سنتے رہے ۔ نبی پاکﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نماز اور دوسرے حالات دیکھتے رہے جوں ہی انہیں چھوڑا گیا، مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ میں گئے ، غسل کیا، مسجد میں آئے اور بندا آواز سے پڑھا: اشھد ان لا الہ الہ اللہ، وان محمّدا رسول اللہﷺ( صحیح بخاری) اب دیکھیے ! اسلام لینے کے ساتھ ہی کیا تبدیلی واقع ہوئی؟ کہنے لگے یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ بغض مجھے کسی چہرے سے نہیں تھا، اب آپ کا چہرا مجھے سب چہروں سے زیادہ مجبوب ہو گیا ہے ۔ اللہ کی قسم! روئے زمین پر کوئی دین مجھے آپ کے دین سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا اور اب آپﷺ کا دین مجھے سب دینوں سے زیادہ پیارا اور محبوب ہے ۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا دکھائی نہیں دیتا تھا او راب آپﷺ کا شہر مجھے سب شہروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے ۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ایک مومن صادق کی قلبی و ایمانی کیفیت کیا ہونی چاہیے ۔
اسی طرح ہندہ بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ جس نے رسول اللہﷺ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا تھا اور جگر چبایا تھا، جب ایمان لائی تو کہتی ہیں: یا رسول اللہﷺ تمام روئے زمین پر آپﷺ کے خیمے والوں سے زیادہ کسی خیمہ میں رہنے والوں کے متعلق میری یہ خواہش نہیں تھی کہ وہ ذلیل ہوں اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ روئے زمین پر آپ کے خیمہ سے بڑھ کر کسی خیمہ کے متعلق میری خواہش نہیں کہ انہیں عزت حاصل ہو ( صحیح بخاری)
الغرض :یہ ایک قدرتی چیز ہے کہ ایمانی محبت تمام محبتوں پر غالب ہوتی ہے اور اللہ پاک کا ہم سے تقاضا بھی یہی ہے کہ ہماری طرف آؤ تو پورے آؤ۔ یہ نہیں کہ کچھ دوستی ہم سے اور کچھ دشمنوں سے ۔ یہ بات اللہ پاک کو بالکل گوارا نہیں۔ارشاد باری ہے کہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!۔۔۔۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ (البقرہ: 208)
علامہ اقبال جوعالم اسلام میں تہذیب اسلامی کے سب سے بڑے نقیب سمجھے جاتے ہیں ،انہوں نے متعددفارسی اور اردو اشعار میں مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ آج ہماری پستی ،زبوں حالی اور کس مپرسی کی واحد وجہ اغیارکی کوری تقلید اور غیرمسلموں کی مشابہت ہے۔ایک مقام پراقبال یوں شکوہ سنج ہوتے ہیں ؂
شور ہے ، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

You may also like

Leave a Comment